ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کو 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے فاضل بجٹ کا ہدف حاصل کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگانے کا عندیہ دیا ہے تاکہ محصولات میں کمی کو پورا کیا جا سکے۔
خبری ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے جنوری 2026 سے لینڈ لائن، موبائل فون اور بینکوں سے کیش نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس بڑھانے کی تجاویز زیرِ غور ہیں۔بینکوں سے کیش نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس 0.6 فیصد سے بڑھا کر 1.5 فیصد کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جس سے غیر فعال ٹیکس دہندگان سے 30 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ایف بی آر کو رواں مالی سال کے دوران 198 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے، جبکہ اب تک 36.5 کھرب روپے محصولات جمع ہو چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق رواں ماہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے محصولات اور آمدنی سے متعلق وزارت خزانہ کے اعدادشمار پر سوالات اٹھائے تھے اور حکومت کی جانب سے سیلاب اور قدرتی آفات کا حوالہ دے کر ٹیکس ہدف میں کمی کو مسترد کردیا تھا۔ اب بتایا جارہا ہے کہ حکومت کی جانب سے اب آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر مقررہ محصولات کا ہدف پورا نہ ہوا تو ٹیکسز سے متعلق مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ٹیکسوں سے متعلق” مزید اقدامات” کا مطلب ویسے بھی عوام کو معلوم ہے اور اس رپورٹ میں ان ”اقدامات ”کی کچھ تفصیل بھی بتائی گئی ہے۔ ساتھ ہی قوم کو اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافے اور حکومت کی جانب سے پڑولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی نوید بھی سنائی جاچکی ہے۔ گویا معاشی ترقی کے بلند بانگ سرکاری دعووں کے علی الرغم عام آدمی کے لیے مزید مہنگائی ، مزید ٹیکسوں اور مزید استحصالی پالیسیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ محصولات،وسائل اور قومی پیداوار سے متعلق بیشتر سرکاری اعدادو شمار تصوراتی اور کتابی نوعیت کے ہوتے ہیں اور زمینی حقائق اور معروضی حالات کا جبر جب سامنے آجاتا ہے تو یہ اعدادوشمار ہوا میں تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ موجودہ حکومت میں محصولات کا ہدف گزشتہ برس بھی سوارب روپے کم رہا اور امسال یہ شارٹ فال دو سو ارب کی حد کو چھونے لگا ہے ۔اب اس شارٹ فال کا بھی وہی” حل” پیش کیا جاتا ہے کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔ ٹیکسوں میں مسلسل اضافے اور اخراجات میں کمی نہ کرنے کی وجہ سے سودی قرضوں کے حجم میں کوئی کمی نہیںآتی۔ سرمایہ دار طبقات تو اس کھیل میں اپنے لیے دولت پیدا کرنے کی نئی راہیں تلاش کرلیتے ہیں لیکن ایک عام تنخواہ دار، دیہاڑی دار، مزدور اور کسان کی زندگی اجیرن ہوکر رہ جاتی ہے جبکہ دوسری طرف عام طبقے پر ٹیکس کا دباؤ بڑھنے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مآلِ کار ٹیکس کا حجم بھی محدود ہو جاتا ہے ۔
معاشی ماہرین کے مطابق ان مسائل کا حل صرف ٹیکس میں اضافہ نہیں ہے۔ حکومت کو ٹیکسوں کی مقدار میں کمی کرکے اس کے پھیلاؤ پر توجہ دینی چاہیے۔ چھوٹے کاروباروں کو فروغ دیا جائے تاکہ حکومت بھاری بھرکم سرمایہ رکھنے والے مافیاؤں کی بلیک میلنگ کا شکار نہ ہو۔ منصوبوں میں شفافیت لائی جائے۔ کرپشن اور خیانت کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ بہرصورت برآمدات میں اضافے کی کوششیں کی جائیں۔ حکومت ان خطوط پر یقینا کام کر رہی ہے لیکن مسائل کے حل کے لیے اول تو درست اہداف کا تعین ہونا چاہیے اور پھر اس کے لیے درست پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ عرصہ دراز سے مختلف حلقے مقتدر طبقات سے یہی گزاش کرتے چلے آرہے ہیں کہ ملک کو درست پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ پالیسیوں کا بنیادی ہدف عام آدمی کا تحفظ اور خالقِ کائنات کے احکا م کے مطابق مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہونا چاہیے۔ ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ سودی پالیسی سے بینکوں کو سرپلس منافع تو حاصل ہو رہا ہے لیکن کاروباری لاگت میں اضافے کی وجہ سے مارکیٹ میں موجود اشیاء بشمول خور ونوش کی ضروری چیزوں کے، تاحال گراں قیمتوں پر فروخت ہو رہی ہیں، اگر یہی سرمایہ کو سود کے نام پر بینک مافیا کو دیا جا رہا ہے، حکومت خود چھوٹے کاروباری طبقات کو بلاسود، آسان قرضوں کی شرائط پر فراہم کرے تو پاکستان کے ہنر مند اور محنت کش بہت جلد بہترین نتائج فراہم کر سکتے ہیں۔ اسپتالوں کی تعمیر اہم ہو سکتی ہے لیکن اس سے بڑھ کر سرمایے کو صحت فراہم کرنے والے منصوبوں پر خرچ کیا جائے، ملاوٹ کی روک تھام کی جائے، لوگوں کو آسان انصاف فراہم کیا جائے اور ملک میں صحت مند ماحول کو ترجیح دی جائے تو اسپتالوں کی ضرورت میں کمی آجائے گی۔ غرض یہ کہ حکومت کو بنیادی پالیسیوں کی درستی پر کام کرنا چاہیے۔ اگر اربابِ حل و عقد شرحِ سود میں کمی کرتے ہوئے اس پیسے سے تاجروں، کسانوں اور ہنر مندوں اور صنعت کاروں کو براہِ راست فائدہ اٹھانے کا موقع دے اور ملک میں ایسے سینکڑوں نہیں ہزاروں مواقع پیدا ہو سکتے ہیں جو کم ٹیکس دے کر بھی حکومت کو کثیر سرمایہ فراہم کردیں گے۔ حکومت ٹیکسوں کی تعداد بڑھانے کی بجائے ان کا دائرہ بڑھانے اور سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے پر حصہ بقدر جثہ ٹیکس عائد کرنے کی ہمت کرسکے تو اس سے ملک کو خطیر آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔
سرمایہ کاری کے لیے غیر سودی بینکاری اور اسلام کے بیان کردہ اقتصادی اصولوں سے بھی مدد لی جانی چاہیے۔ مضاربت و مشارکت اگر درست خطوط پر ہو اور قوانین کے ذریعے انھیں تحفظ فراہم کیا جائے تو ہزاروں اقتصادی منصوبے شروع کیے جاسکتے ہیں۔ زکوٰة اور عشر کا نظم درست طورپر قائم کردیا جائے، بے انتہا غریب لیکن باصلاحیت لوگوں کو قرضِ حسنہ دیاجائے، تعلیم کو ارزاں کیا جائے اور ہنر کی تعلیم کو عام کردیاجائے، یہ تمام معاملات نظامِ عدل کی بحالی کے متقاضی ہیں، حکومت کوئی تجارتی کمپنی نہیں ہوتی کہ اسے اپنا پیٹ بھرنے کی فکر ہو، اس ادارے کا حقیقی مقصد ربِ کریم کی خوش نودی کی خاطر عوام کا تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوشش ہے۔ اگر اس اصول کوسامنے رکھ کر حکمرانی کا فریضہ انجام دیا جائے تو ملک کو بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑا کیاجاسکتاہے۔ قرضوں اور بیرونی سرمایہ کار ی پرانحصار سے وقتی مشکلات تو شاید دور ہوجائیں لیکن ملک بتدریج ایک دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔ اس وقت کے آنے سے پہلے مقتدررطبقات کو ملک کی سمت درست کرنے اور پالیسیوں پر از سرِ نو غور کرنے اور اصلاح کی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ایک کے بعد دوسری کھائی یا دلدل ہماری منتظر رہے گی۔

