ایک بات میں بالکل ہی نہیں سمجھ پایا کہ ظہران ممدانی کے مئیر نیویارک بننے پر بہت سے لوگوں کا خوش ہونا تو خیر ایک فطری اور قابل فہم بات ہے مگر اس خوشی پر معترض ہونے، تنقید کرنے یا طنزیہ تحریریں لکھنے کی کیا تک ہے؟ کم از کم میری تو سمجھ میں یہ بات بالکل نہیں آئی۔ سادہ سی بات ہے کہ ایک نوجوان نے اپنی ہمت، صلاحیت، ہنر، اچھی کمپین اور کمال انداز میں متنوع سیاسی پاکٹس کو اکٹھا کر ایک کرشمہ کر دکھایا۔ نیویارک جیسے اہم شہر کا وہ میئر بن گیا۔ ہر اعتبار سے حیران کن کامیابی ہے۔ اسے سراہنا چاہیے اور خوش بھی ہوا جا سکتا ہے، مگر اس پر تنقید کیوں؟ آئیے ناقدین کے اس پورے مقدمہ کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستانی کیوں خوش ہوئے؟یہ سوال کئی جگہوں پر کیا جا رہا ہے کہ آپ پاکستانی کیوں اتنے خوش ہو رہے ہیں، دیوانے ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سوال کا جواب پانا کوئی مشکل کام ہے کیا؟ نیویارک کا معرکہ جیتنے والے اس فاتح پر ایک نظر ڈالیں۔ 3، 4 چیزیں واضح ہیں۔ مسلمان سیاستدان: پہلی یہ کہ وہ مسلمان ہے، ایسا مسلمان جس نے اپنی مذہبی شناخت کو چھپانے کی بجائے اسے اپنی قوت بنایا۔ تاریخ میں پہلی بار نیویارک جیسے شہر کا میئرایک مسلمان بنا ہے، یہ کوئی کم یا معمولی بات ہے؟ کیا یہ ہم پاکستانی مسلمانوں کو اچھی نہیں لگنی چاہیے؟ یا اس پر ہم ماتم کریں، اپنے سروں میں خاک ڈالیں کہ ایک مسلمان کیسے نیویارک جیسے شہر کا میئر بن گیا؟پاکستانیوں کی خوشی ایک مسلمان کے مغربی معاشرے میں کامیابی پر ہے۔ جو لوگ اس پر طنز کرتے ہیں، وہ دراصل مسلم شعور کے اجتماعی احساس کو نہیں سمجھ پاتے۔ یہ مسلم شناخت کی کامیابی کی خوشی ہے۔ وہ شناخت جسے مغرب میں اکثر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نیویارک، لندن اور کئی دیگر یورپی شہروں میں مسلمان سیاستدان ابھر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مشکل حالات اور اسلامو فوبیا کے تعصب کے باوجود مسلمان نوجوان تعلیم، خدمت اور شرافت سے مقام حاصل کر رہے ہیں۔ نیویارک میں کامیابی محض ظہران ممدانی کی نہیں، ہر اس مسلمان کی ہے جو مغرب میں اپنی محنت اور دیانت سے تعصب کے قلعے گرا رہا ہے۔
مڈل کلاس سیاسی ورکر: دوسرا یہ کہ وہ ایک مڈل کلاس نوجوان ہے۔ اس نے بڑے سرمایہ داروں کو شکست دی ہے۔ مقابلے میں اس سے زیادہ دولت مند، بے پناہ وسائل رکھنے والے امیدوار تھے۔ امریکا بلکہ دنیا کے امیر ترین افراد جیسے ایلون مسک کھل کر اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک مڈل کلاس پولیٹکل ورکر ٹائپ شخص نے جس انداز میں اتنی بڑی کارپوریٹ ورلڈ کو عوامی قوت سے شکست دی، وہ قابل تعریف، قابل ستائش اور نہایت حوصلہ افزا ہے۔ اس جیت پر دنیا بھر میں مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس حلقے کو خوشی ہوئی، انہیں حوصلہ ہوا ایلون مسک جیسے متکبر کھرب پتی کو بھی ہرایا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ اور الٹرا رائٹ ونگ کو ہرانا: ظہران ممدانی نے صدر ٹرمپ اور ان کے انتہائی الٹرا رائٹ ونگ حامیوں کی بہت طاقتور لابی کو ہرایا ہے۔ ٹرمپ کا ایک خاص اسٹائل ہے، وہ اپنے مخالفوں کی کردار کشی کرتا ہے، انہیں کسی بری ناپسندیدہ علامت سے تشبیہ دے کر ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس نے ہر ایک کے ساتھ کیا۔ ٹرمپ نے یہی ظہران ممدانی کے ساتھ بھی کیا۔ اسے کمیونسٹ کہہ کر امریکی عوام میں ڈس گریس کرنے کی کوشش کی۔ یہ کہا کہ ممدانی جیتا تو نیویارک کمیونسٹ ہوجائے گا وغیرہ۔
ٹرمپ کے رائٹ ونگ حامیوں نے ٹرمپ کے برعکس ظہران ممدانی کیخلاف اسلاموفوبیا کا ہتھیار استعمال کیا۔ جون میں جیسے ہی ممدانی نے ڈیموکریٹ پارٹی کی پرائمری جیتی، اگلے ایک ہفتے میں اس کیخلاف 7 ہزار کے قریب اسلاموفوبیا پر مبنی سوشل میڈیا پوسٹیں لگائی گئیں، ایک پوری کمپین چلی۔ ٹرمپ کے قریبی حلقے میں موجود اور میک امریکا گریٹ اگین تحریک کی رہنما سارا لومر نے باقاعدہ ٹوئٹ کیا کہ اگر ظہران ممدانی جیت گیا تو نیویارک کو نائن الیون 2 دیکھنے کو ملے گا۔ ایسی فیک تصاویر پوسٹ کی گئیں جس میں ممدانی کی لمبی ڈاڑھی تھی اور وہ کسی شدت پسند عسکریت پسند سے مشابہ لگے۔ خود ٹرمپ کے حمایت یافتہ میئر کے امیدوار اینڈریو کومو نے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر یہ کہا کہ ممدانی تو شائدنائن الیون کے موقع پر خوشی سے جشن منانا چاہے گا۔ اگر ایک شخص نے اس پوری اسلاموفوبیا کمپین اور ان زہریلے حملے کرنے والوں کو شکست دی ہے تو کیا اس پر خوشی ہونا فطری نہیں؟ کیا ایسا نہیں کہ ممدانی کو اسلامو فوبیا کا نشانہ اس کے مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس کی جیت پر اس کے ہم مذہب کیوں نہ خوش ہوں؟
پرو اسرائیل صہیونی لابی کی شکست: ظہران ممدانی نے نیویارک کی بڑی کارپوریٹ ورلڈ، اپنے ری پبلکن مخالفوں، صدر ٹرمپ اور اس کے الٹرا رائٹ ونگ کے ساتھ ساتھ پوری صہیونی لابی کو شکست فاش دی ہے۔ یہ کوئی عام بات ہے؟ ممدانی کا فلسطین کے حوالے سے موقف واضح اور بڑا جرات مندانہ رہا۔ وہ اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کا علانیہ شدید ناقد رہا ہے۔ اس نے نتن ہاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ وہ نیویارک کے میئر کے طور پر سٹی پولیس کو اسرائیلی وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم دے د ے گا۔ اسی وجہ سے پرواسرائیل لابی نے ڈٹ کر اور کھل کر اس کی مخالفت کی۔
اسرائیل کے پورے میڈیا نے زوردار مہم چلائی اور نیویارک کے یہودی ووٹرزکو ممدانی کے خلاف ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ الیکشن کے بعد زرا پچھلے 2، 3 دنوں کا اسرائیلی میڈیا تو دیکھ لیں۔ کئی اخبارات انگریزی میں ہیں اور وہ آسانی سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ دیکھیں کیا صف ماتم بچھی ہے وہاں؟
ظہران ممدانی کے حوالے سے پھیلائے گئے مغالطے
پہلا مغالطہ : پاکستانیوں کا نیویارک سے کیا تعلق؟ ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ ممدانی نیویارک سے جیتا ہے، ہم پاکستانی کیوں خوش ہیں، ہمارا نیویارک سے کیا تعلق؟ یہ وہی مخصوص علاقائی محدودیت والا طعنہ ہے جس سے ہمارے نام نہاد سیکولر حضرات مسلم امہ کے اجتماعی احساس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کوئی بھارتی نژاد ہندو کسی امریکی کمپنی کا سی ای او بنے تو یہی لوگ بھارتی دماغ کے گن گاتے ہیں اور پاکستان کو لعنت ملامت کرتے ہیں کہ دیکھو انڈین دماغوں نے دنیا بدل دی۔ تو پھر ایک مسلمان کے عالمی سطح پر ابھرنے پر پاکستانی کیوں خوش نہ ہوں؟یہ خود فریبی نہیں۔ ظہران ممدانی کی کامیابی پر پاکستانیوں کی خوشی کو خود فریبی کہنا دراصل خود کم فہمی ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی مسلمان جب انصاف، انسانیت، یا جرت کا مظاہرہ کرتا ہے، تو امتِ مسلمہ خوش ہوتی ہے جیسے کوئی عرب یا ترک یا انڈونیشی سائنس دان عالمی ایوارڈ لے تو ہم کہتے ہیں: الحمدللہ ایک مسلمان نے یہ کیا۔ یہ اجتماعی شعور کا اظہار ہے، خود فریبی نہیں۔ خوشی کبھی سرحدوں میں قید نہیں ہوتی۔ ہم ظہران کی جیت کو اپنا فخر اس لیے کہتے ہیں کہ مغرب میں اسلام کا نام دہشت گردی سے جوڑا گیا تھا، آج وہی نام عزت، انصاف اور اصلاح کا نشان بن رہا ہے۔
اس پورے پس منظر میں ظہران ممدانی کی کامیابی پر ہمارے ہاں خوش ہونے کے قوی دلائل، وجوہات، اسباب موجود ہیں۔ اس پر تنقید کرنا البتہ ناقابل فہم اور غیر منطقی ہے۔ ظہران ممدانی کے ناقد پہلے یہ طے کرلیں کہ وہ کس طرف ہیں؟وہ اسلامو فوبیا کے حامی ہیں یا مسلم کلچر، مسلم آئیڈنٹٹی کے ساتھ؟ وہ یہ بتائیں کہ سخت گیر صہیونی لابی کے ساتھ ہیں یا پرو فلسطین موقف رکھنے والے کے حامی؟ وہ صدر ٹرمپ، ایلون مسک اور دیگر کارپوریٹ بگ گنز کے گماشتے ہیں یا پھر وہ ان جائنٹس کو ہرانے والے کے ساتھ خوش ہونا چاہیں گے؟ میرے خیال میں تنقید کرنے والوں کو کسی واضح بیانیے کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ظہران پر طنز کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی ہی سماجی مایوسی ظاہر کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا خوف ہے کہ دنیا بدل رہی ہے اور مسلمان مثبت کردار کے ذریعے عزت حاصل کر رہے ہیں۔

