امریکا میں مسلم شناخت رکھنے والے نوجوان ظہران ممدانی کی بطور مئیر نیویارک جیت پوری دنیا کے نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے کہ محنت ،کوشش اور لگن کے ذریعے بڑی سے بڑی مہم بھی سر کی جاسکتی ہے۔ دراصل اللہ نے اس دنیا کا نظام چلانے کے لیے کچھ اصول، ضابطے اور قاعدے مقرر کیے ہیں۔ بلاتفریق مسلمان اور غیرمسلم جو بھی انسان ان کی پابندی کرے گا اور متعین کردہ اصولوں کے مطابق چلے گا، اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے۔ پسماندہ ممالک اور غریب معاشروں اور پاکستان میں بھی ایسا ہوا ہے۔ کلرک سے لے کر بس پر کنڈیکٹری کرنے والوں تک نے اعلیٰ مناصب حاصل کیے ہیں۔
”ڈاکٹر جیرڈ ڈائمنڈ”کی کتاب ”لیسنز فرام اینوائر مینٹل کولیپسز آف پاسٹ سوسائٹیز” کا مطالعہ کرلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبیں بستر کے محافظوں اور ڈرائنگ روم کے دربانوں سے نہیں جفاکشی کی داستانوں سے باقی رہتی ہیں۔ اگر کار تھیج کے ہنیبال، مقدونیہ کے سکندر، روم کے سیزر، ایران کے دارا، یورپ کے نپولین، ہندوستان کے راجہ اَشوکا اور منگولیا کے تاتاریوں کی مائوں نے انہیں پیمپرز باندھ کر اونگھنا سکھایا ہوتا تو کیا وہ گھوڑے کی ننگی کھردری پشت پر بیٹھ کر دنیا فتح کرنے کے لیے نکل سکتے تھے؟ نہیں ہر گز نہیں!غریب کے لیے بھی مواقع اتنے ہی ہیں جتنے امیر کے لیے ہیں۔ غریب کی اولاد بھی کامیابی کی معراج اور ترقی کے زینے پر چڑھ سکتی ہے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو ہمہ وقت روتے رہتے ہیں۔ آخرکار یہی رونا ان کا مقدر بنادیا جاتا ہے۔ کبھی ناکامیوں پہ، کبھی زمانے پہ، کبھی حسرتوںپہ، کبھی وسائل کی کمیابی پہ روتے اور بین ہی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے آپ کو دنیا کا مظلوم ترین انسان سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ ظالم دنیا کے نشتر کا ہر رخ ان کی طرف ہوتا ہے۔ یہ کامیابی کا حق دار ہونے کی باوجود دور پھینک دیے جاتے ہیں۔ پورا جہان تاک میں بیٹھا رہتا ہے۔ افسوس کرتے رہتے ہیں اور افسوس ہی ان مقدر بنادیا جاتا ہے۔ ماضی کی خواہشات پوری نہ ہونے کا افسوس، لوگوں کے رویوں کا افسوس، بے وفائیوں پر افسوس، یہاں تک کہ افسوس کرنا اور کچھ نہ کرنا ان کے کردار کا اٹوٹ انگ بن جاتا ہے۔ وقت ضائع کردیتے ہیں۔ گھڑی آگے چلتی رہتی ہے۔
انسان جس چیز میں اپنا سب سے زیادہ وقت برباد کرتا ہے، وہ افسوس ہے۔ بیشتر لوگ ماضی میں گھرے رہتے ہیں۔ وہ یہ سوچ سوچ کے کڑھتے رہتے ہیں کہ کاش! ایسا نہ کیا ہوتا تو جو کام بگڑ گیا ہے وہ نہ بگڑتا۔ زندگی میں سب سے اہم چیز کامیابیوں سے فائدہ اٹھانا نہیں، ہر بے وقوف ایسا کرسکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں اہم چیز یہ ہے کہ نقصانات سے فائدہ اٹھائو۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک سمجھ دار اور بے وقوف میں فرق کرتی ہے۔ اس دنیا میں صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ناموافق حالات کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ہر شخص کی زندگی میں کوئی نہ کوئی لمحہ، کوئی نہ کوئی موڑ، کوئی نہ کوئی وقت ایسا ضرور آتا ہے جو انسان کی قسمت، تقدیر اور حالات بدل دیتا ہے۔ ”مسٹر آئی نیش” جاپان گئے تو انہوں نے جاپانی قوم کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ جس کے بعد ان کا کہنا تھا: ”جاپانی قوم کو سب سے زیادہ متاثر سیاست نے نہیں بلکہ کانٹو کے عظیم زلزلے نے کیا جس میں مشرقی جاپان تہس نہس ہوکر رہ گیا تھا۔ دوسرا انسانی ساخت کا زلزلہ 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی کا ملبے کا ڈھیر بن جانا تھا۔ پتا چلا زلزلے سے اگر تعمیری ذہن پیدا ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔ جب بھی آدمی کی زندگی میں کوئی بربادی کا واقعہ پیش آئے تو وہ اس کو دو امکانات کے درمیان کھڑا کردیتا ہے۔ وہ یا تو اس سے سبق لے کر ازسرِ نو متحرک ہو کر اپنی نئی تعمیر کرتا ہے یا مایوسی اور شکایت کی غذا لے کے سرد آہیں بھرتا ہے۔
کشتی رانی کے مقابلوں میں ”امریکا کپ” نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسے ”امریکا کپ” اس لیے کہا جاتا ہے کہ 138 سال تک یہ کپ امریکا جیتتا رہا۔ 1983ء میں پہلی دفعہ آسٹریلوی ٹیم نے اسے جیت کر دنیا کو حیران کردیا۔ اس سال امریکی ٹیم کی قیادت ”ڈینس کورنر” کررہا تھا، لیکن اس نے اس واقعے سے ہمت نہ ہاری۔ وہ 3 سال ہارتا رہا، مگر چوتھے سال یہ اعزاز دوبارہ جیتنے میںکامیاب ہو گیا۔ اس کی اس جیت کا ایک اہم عامل الہامی بے اطمینانی تھی، یعنی یہ احساس کہ تاریخ میں یہ کپ پہلی دفعہ مجھ سے چھینا گیا ہے۔ اس احساس نے اس کو پھر کامیاب کردیا۔اسی طرح ”ییل” دوسری جنگِ عظیم میں فرانس کے علاقے میں جرمنی کے ہوائی جہازوں کا مقابلہ کررہا تھا۔ وہ اکیلا تھا، لیکن کسی طرح لڑکھڑاتا ہوا اپنے جہاز کو بچا کر اسپین کے علاقے میں لے آیا جہاں وہ محفوظ تھا۔ جنگ کے اختتا م پر فضائیہ نے اس کو رخصت پر بھیجنے کا ارادہ کیا۔ اسے یقین تھا اگر میں اب واپس چلا گیا تو شاید دوبارہ فضائیہ کو میری ضرورت نہ رہے۔ بعد ازاں ”ییل” وہ پہلا شخص بناجسے آواز سے زیادہ تیز طیارہ اڑانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
بھارت کے گاندھی جی اپنی کتاب ”تلاشِ حق’ میں لکھتے ہیں: ”میرے اندر شرمیلا پن بہت تھا۔ یہاں تک کہ کسی سے بات بھی نہ کرسکتا۔ جب وہ لندن گئے تو ویجیٹیرن سوسائٹی کے ممبربن گئے۔ ایک بار انہیں میٹنگ میں تقریر کے لیے کہا گیا۔ وہ کھڑے ہوئے مگر کچھ نہ بول سکے اور شکریہ ادا کرکے بیٹھ گئے۔ ایک اور موقع پر کاغذ پر اپنے لکھے ہوئے خیالات کا اظہار بھی نہ کرسکے۔ وکالت کے بعد مقدمہ لڑنے گئے تو جج کے سامنے دلائل بھی پیش نہ کرسکے۔ اپنے کلائنٹ سے کہا: ”آپ کوئی اور وکیل کر لیں لیکن گاندھی جی لکھتے ہیں یہ کمیاں بعد میں میرے لیے بڑی نعمت ثابت ہوئیں۔ یہ ہچکچاہٹ جو کبھی مجھے بڑی تکلیف دہ معلوم ہوتی تھی، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا اس نے مجھے مختصر الفاظ میں بولنا سکھایا۔ میرے اند ر فطری طور پر یہ عادت پیدا ہوگئی میں اپنے خیالات پر قابو رکھوں۔ اب میں اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں۔ مشکل سے ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لایعنی لفظ میری زبان یا قلم سے نکلے۔اس طرح سیکڑوں ہزاروں نام لکھے جاسکتے ہیں کہ جنہوں نے غربت اور حالات کا ڈَٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر کامیاب ہوگئے۔ اے نوجوان !آپ بھی محنت کے بل بوتے پر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ محنت میں عظمت بھی ہے اور اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ تجربہ شرط اوّل ہے۔

