وہ جو تاریک مٹی پہ مارے گئے

بے گناہ اور نہتے شہری کہیں بھی مریں، دل کوئی مٹھی میں بھینچ لیتا ہے۔ وہ شہری جن کا قصورصرف یہ تھا کہ وہ اس مٹی پر پیدا ہوئے تھے جہاں مسلح گروہ آپس میں اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے۔ جنہیں دو وقت کا کھانا بھی بمشکل میسر آتا ہے اور پینے کا گدلا پانی بھی اس صحرا میں آبِ حیات کی طرح ملتا ہے۔ جب یہ بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں تو تعلیم، صحت اور شہری سہولتوں کا سوال کون کرے؟ سوڈان میں ہلاکتوں کی تازہ لہریں سن سن کر دل ڈوبتا ہے۔ مسلح گروہ ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے لوگ مارے جائیں یا سرکاری فوجوں کے سپاہی، ان کے پاس اپنے دفاع کیلئے کچھ ہے تو سہی، ان نہتوں کے پاس فریاد کے سوا کیا ہے۔

مسلح گروہ آر ایس ایف نے شمالی دارفور سوڈان میں کئی سال سے جاری جنگ میں الفاشر شہر کی ایک سرکاری فوجی چھاؤنی پر قبضہ کر لیا ہے جو سرکاری فوج کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ الفاشر کا محاصرہ اور قحط ڈیڑھ سال سے جاری تھا اور یہ اس علاقے میں سوڈان کی سرکاری فوجوں کا آخری مضبوط مرکز تھا۔ ویسے تو سرکاری اعلان کے مطابق دو ہزار نہتے شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن عینی شاہدین اور دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک بچ نکلنے والے نے بتایا کہ میری بیوی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئی اور ہمیں جان بچا کر بھاگتے ہوئے اس کی موت پر سوچنے، سمجھنے اور غم کرنے کی بھی مہلت نہ ملی۔ گلیاں لاشوں سے بھری پڑی تھیں۔ آر ایس ایف کے ایک فوجی کو خود میں نے کہتے سنا کہ ان سب کو مار دو، کوئی بھی بچ کر جانے نہ پائے۔

اس خانہ جنگی کا آغاز اپریل 2023ء میں ہوا تھا۔ اس وقت سے اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں۔ زخمیوں کا بھی شمار نہیں اور جو عصمت دریاں ہوئی ہیں، ان کا بھی۔ سوا کروڑ کے قریب لوگ بے گھر ہوکر دوسرے شہروں میں ہجرت پر مجبور ہوئے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور عوامل کیا ہیں؟ اس کا جواب سیدھا سا ہے۔ جب کسی ملک کی مٹی میں خزانے پوشیدہ ہوں اور بیرونی طاقتوں کی لالچی نظریں ان پر پڑ رہی ہوں، عوام بے دست و پا ہوں اور ملک میں سیاسی نظام موجود ہی نہ رہے، طاقت کی حکمرانی ہی دستور بن جائے تو ہاتھیوں کی لڑائی میں عوام جیسے حشرات الارض ہی پستے ہیں۔ جب طاقتور گروہ ملک میں اپنے اپنے فیصلے نافذ کریں اور کسی کی نہ سنیں تو بیرونی طاقتیں بھی اپنے اپنے مفاد کیلئے کود پڑتی ہیں۔ ایک طاقت ایک گروہ کی پشت پناہی کرتی ہے اور دوسری طاقت دوسرے گروہ کی۔ ان بیرونی طاقتوں کا فائدہ ہی فائدہ ہے، نقصان کسی ایک کا بھی نہیں۔ نقصان میں صرف عام شہری رہتے ہیں جو اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائے پھرتے ہیں۔ اپنے سامان اٹھائے، اپنے گھروں کو روتے، کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ سوڈان میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو دولت، طاقت، قوت اور فیصلہ سازی کو اپنی ذات میں مرتکز کرنے کی شدید خواہش کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے۔

دو جرنیل ملک کو اس بارود پر گھسیٹ لائے ہیں جس میں نہ کسی سوڈانی کی جان اور مال محفوظ ہے نہ کسی غیرملکی کی۔ دو طاقتور جرنیلوں کی لڑائی ملک کو تہس نہس کر رہی ہے۔ ایک کا نام عبد الفتاح البرہان ہے جو کئی سالوں سے سوڈان کی سرکاری فوجوں کا سربراہ اور عملاً ملکی سربراہ ہے۔ البرہان کی تمام تر کوشش ایک ڈکٹیٹر کے طور پر مستقل طور پر ملک کا سربراہ بن جانے کی ہے۔ دوسرے جرنیل کا نام محمد حمدان داگلو ہے جو عام طور پر جنرل حمیدتی کے نام سے معروف ہے۔ حمیدتی ریپڈ سپورٹ فورسز کا سربراہ ہے جو سرکاری فوجوں سے لڑ رہی ہے۔ یہ ایک طاقتور ملیشیا گروپ ہے جو سرکاری افواج کے دائرے سے باہر ہے۔ ملکی معیشت اور خاص طور پر دار فور میں سونے کی کانیں حمیدتی کے کنٹرول میں ہیں اور وہ اقتدار کی اس لڑائی میں اپنی مرضی کے فیصلے کر رہا ہے۔ اس کا حتمی مقصد بھی بظاہر پورے ملک کا اقتدار خود سنبھالنا ہے۔ ان دونوں جرنیلوں کی ذہنیت میں ایک ہی بات دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ کہ ہم میں سے ایک ہی باقی رہے گا۔ یعنی اس کا کوئی امکان نہیں کہ دونوں سمجھوتا کر لیں، مل جل کر حکومت کریں اور ملک کو اس خانہ جنگی سے باہر لے آئیں۔

اس خانہ جنگی میں اب تک ہزاروں بے گناہ بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ مغربی طاقتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آر ایس ایف کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ دار فور، جو سوڈان کا وسائل سے مالا مال بڑا جنوب مغربی علاقہ ہے، اس کشمکش کی ایک بڑی تاریخ رکھتا ہے۔ قریب قریب دو لاکھ مربع کلو میٹر کا یہ رقبہ بہت مدت سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔ 2003ء کی خونیں خانہ جنگی اور نسل کشی میں تین سے چار لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے اور سوڈانی صدر عمر حسن احمد البشیر پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے بہت سے الزامات لگے۔ دراصل یہ وہ شخص ہے جس کی خواہشِ اقتدار نے سوڈان کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔ سوڈانی فوج کا یہ بریگیڈیئر جنرل صادق المہدی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آیا تھا۔ اپنی مرضی کے انتخاب کروا کر، جن کی حیثیت ہمیشہ مشکوک رہی، سوڈان کا ساتواں صدر بنا اور مختلف عہدوں کے تحت 1989ء تا 2019ء تیس سال تک سربراہِ حکومت رہا۔

2005ء میں سوڈان اسی کے دور میں یعنی جنوبی سوڈان اور شمالی سوڈان میں تقسیم ہو گیا۔ 2009ء میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ یعنی آئی سی سی نے اسے قتلِ عام، نسل کشی، جبری زیادتی کا مجرم قرار دیا تو یہ پہلا صدر تھا جسے عہدے پر ہوتے ہوئے ان جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ یہ شخص بالآخر ایک طاقتور غیرمسلح عوامی تحریک کے سبب فوجی بغاوت کی وجہ سے اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ فروری 2020ء میں سوڈانی حکومت نے اعلان کیا کہ ہم نے احمدالبشیر کو مقدمات چلانے کیلئے آئی سی سی کے حوالے کر دیا ہے۔ ان جرائم کے علاوہ بھی احمد البشیر پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے بہت سے الزامات تھے۔احمد البشیر اور جنرل برہان کی ہوسِ اقتدار اپنی جگہ لیکن حمیدتی کا پس منظر دیکھیں تو اس طرف بھی سوڈان کے واحد سربراہ بننے کی شدید خواہش نظر آتی ہے۔

حمیدتی کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ دار فور میں ایک نچلے متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ تیسری جماعت میں اسکول سے نکال دیا گیا۔ ایک زمانے سے اونٹوں کی خرید و فروخت کا کام کرتا رہا۔ دار فور جنگ کے زمانے میں جنجاوید نامی مسلح ملیشیا کا رہنما بن کر سامنے آیا۔ احمد البشیر نے اپنی اغراض کیلئے اس کی پشت پناہی کی اور رفتہ رفتہ سونے کی کانوں اور ذرائع مواصلات سے لے کر مویشیوں کے بڑے کاروبار تک بہت کچھ اس خاندان کے قبضے میں آگیا۔پھر آر ایس ایف کا، جس کا بڑا حصہ جنجاوید ملیشیا پر مشتمل ہے، بڑا لیڈر بنا اور اسی آر ایس ایف نے احمد البشیر کو 2019ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے نکال باہر کیا۔ ایک نئی کونسل جس میں سول نمائندگی بھی تھی، تشکیل پائی جس کا سربراہ البرہان اور نائب سربراہ حمیدتی تھے اور اب یہی سربراہ اور نائب سربراہ اس طرح آپس میں لڑ رہے ہیں کہ پورا ملک ان کی دو طرفہ لگائی ہوئی آگ اور ایک دوسرے پر چلائی ہوئی گولیوں اور بموں کی زد میں ہے۔ البرہان کے پاس فضائیہ بھی ہے اور وہ اس کا مسلسل استعمال کر رہا ہے۔ حمیدتی اور البرہان کو کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ دنیا نے شدید خواہشِ اقتدار والے کیسے کیسے خود پرست بھگتے ہیں۔

سوڈان جل رہا ہے، اس کے لوگ مر رہے ہیں اور بچانے والا کوئی نہیں کیونکہ جو طاقتیں اسے کنٹرول کر سکتی ہیں، ان کے اپنے مفادات ان وسائل سے منسلک ہیں۔ مٹی تلے دبے سونے اور معدنیات کے خزانے ان طاقتوں اور ان کے آلہ کاروں کی نگاہیں خیرہ کیے دیتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ وسائل نہ ہوتے تو یہ قتل و غارت بھی اس طرح نہ ہوتا۔ سوڈان اور اس کے شہریوں کے پاس یہ وسائل کبھی آبھی سکیں گے یا نہیں، یہ الگ سوال ہے۔ لیکن فی الحال تو وہ اپنے لوگوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں اور اپنے گھروں سے بھاگ کر امن کی تلاش میں ہیں۔ وہ امن جو کہیں نہیں ہے۔