پاک سعودی دفاعی و اقتصادی شراکت داری

ریاض میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طویل اقتصادی شراکت کا معاہدے طے پاگیا ہے جس کے تحت سعودی عرب سی پیک منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کرے گا اور پاکستان میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر، بجلی کی ترسیل کا نظام جدید خطوط پر استوار کرنے سمیت متعدد اہم منصوبوں میں بھی سعودی حکومت پاکستان کے ساتھ شراکت کرے گی۔ علاوہ ازیں سعودی عرب رواں مالی سال 2025ـ26 میں پاکستان کو تیل کی درآمد کی مد میں ایک ارب ڈالر کی موخر ادائیگی کی رعایت دے گا جبکہ پہلے سے پاکستان پر واجب الادا پانچ ارب ڈالر کا قرضہ بھی موخر کرے گا۔ قرض کی مد میں سعودی ڈیپازٹس 1450 ارب روپے کے مساوی ہیں، سعودی عرب نے پاکستان کو یہ قرض بجٹ سپورٹ کی مد میں فراہم کر رکھا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کا تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت پاکستان اور سعودی عرب نے ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی شعبے میں شراکت بڑھانے کے علاوہ یہ اعلان کیا تھا کہ دونوں میں سے کسی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ سمجھاجائے گا۔ اس معاہدے کی صورت میں پاکستان کو ارض حرمین کے دفاع کی ذمہ داریوں میں شامل ہونے کی سعادت ملی جو پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام کے لیے باعث فخر امر ہے ۔ اب تازہ خوش آیند پیشرفت یہ ہوئی کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارت و اقتصاد کے شعبے میں بھی باہمی تعاون بڑھانے کا معاہدہ طے پاگیا ہے جو یقینا دونوں برادر اسلامی ممالک کے عوام اور بالخصوص پاکستانی قوم کے لیے مسرت و اطمینان کا پیغام ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مالی خسارے اور ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں جمع رکھنے کے لیے فراہم کیا جانے والا اربوں ڈالرز کا سرمایہ ہماری معیشت کے لیے ایک بڑا سہارا ہے جو سعودی حکومت کی جانب سے پہلے سے فراہم کیا جارہا ہے۔ اب دفاعی اور اقتصادی شعبوں میں خطیر سعودی سرمایہ کاری پاکستان کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور ہماری مسلح افواج کی پیشہ ورانہ قابلیت دنیا بھر میں تسلیم شدہ حقیقت ہے اور رواں سال مئی میں بھارتی جارحیت کے جواب میں ہماری بہادر افواج بالخصوص پاک فضائیہ جس شاندار کار کردگی کا مظاہرہ کیا ،اس نے بحمد اللہ پوری دنیا میں ہماری دھاک بٹھادی ہے ،یہاں تک کہ امریکی صدر ٹرمپ بھی ہماری فوج اور اس کے سربراہ کی تعریف میں رطلب اللسان ہیں،جبکہ پاکستان کی اس بے مثال کامیابی نے اسلامی دنیا کے حوصلے بھی بلند کر دیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد متعدد اسلامی ممالک نے پاکستان سے دفاعی شراکت قائم کرنے میں دل چسپی ظاہر کی، اسی ضمن میں گزشتہ روز فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی اردن کے شاہ عبد اللہ سے ملاقات ہوئی ہے جس میں اطلاعات کے مطابق اردن نے پاکستان کے ساتھ دفاعی شراکت کی خواہش کا اظہار کیا ہے جبکہ سعودی عرب نے سب پر سبقت لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ باقاعدہ دفاعی معاہدہ کرلیا ۔ اس معاہدے کو عالمی سطح پر اہمیت دی گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور سعودی عرب کا سرمایہ اگر مل جائیں تو اس سے کتنی بڑی قوت وجود میں آسکتی ہے۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور جدید عسکری ٹیکنالوجی میں مہارت مسلمہ ہے مگر پاکستان کے ابتر معاشی حالات دفاعی شعبے میں اس کے بہت سے منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں حائل اور مانع بنتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کے بعد یقینا پاکستان کو دفاعی شعبے میں اپنی ضروریات کی تکمیل میں مدد ملے گی اور ایٹمی صلاحیت سے لیس پاکستانی فوج کے ساتھ شراکت سعودی عرب کے لیے بھی مضبوط دفاع کی ایک علامت ہوگی۔

اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی شراکت کا فروغ بھی دونوں ملکوں کے بہترین مفاد میں ناگزیر ہے، سی پیک منصوبوں میں سعودی عرب کی شراکت داری ان منصوبوں میں کام کی رفتار تیز کرنے میں مدد دے گی۔پاکستان میں سی پیک منصوبوں میں کام کی سست رفتاری کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پاکستان ان منصوبوں میں اپنے حصے کی سرمایہ کاری کا انتظام نہیں کرپاتا جس کی بنا پر چین بھی ہچکچاہٹ کا شکار رہتا ہے۔ سعودی سرمایہ کاری کی آمد سے یہ رکاوٹ دور ہوجائے گی اور سی پیک منصوبے ہموار طریقے سے آگے بڑھ سکیں گے۔اسی طرح پاکستان میں بجلی کا بحران بھی سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ملک میں ضرورت سے زائد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہونے کے باوصف بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیدوار پر تو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے تاہم بجلی کی ترسیل کے نظام کو اپ گریڈ کرنے اور جدید ٹرانسمیشن سسٹم لانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث ملک بھر میں بجلی کی ترسیل نہیں ہوپاتی۔پرانے سسٹم کو اپ گریڈ کرنے اور نئی ٹرانسمیشن لائنیں بچھانے کے لیے اربوں ڈالرز کا سرمایہ چاہیے جس کی پاکستان کے پاس سکت نہیں ہے۔ اب اگر سعودی عرب نے اس شعبے پر سرمایہ کاری کی ذمہ داری لی ہے تو یہ پاکستان کے لیے بڑی خوش خبری ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ پانی کی قلت کا بھی ہے۔ پاکستان میں پانی کے وافر قدرتی وسائل کے ہوتے ہوئے ملک کو پانی کی کمیابی کا چیلنج درپیش ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے آبی ذخائر کی تعمیر پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ کالاباغ ڈیم جیسے منصوبے کئی عشروں تک فضول بحث و مناقشے اور سیاست کا موضوع رہنے کے بعد سرد خانے کی نذر ہوگئے اور جب ریاست نے متبادل ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا تب بہت دیر ہوچکی تھی۔ دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم سمیت کئی ڈیموں پر کام جاری ہے لیکن درکار بجٹ دستیاب نہ ہونے کے باعث یہ منصوبے بھی تاخیر کا شکار ہیں جبکہ ملک میں پانی اور بجلی کی ضروریات ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ ایسے میں اگر سعودی عرب جیسے خیرخواہ برادر اسلامی ملک کی جانب سے ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر میں سرمایہ لگانے کی پیشکش ہوئی ہے تو یہ بھی پاکستان کے لیے ایک حوصلہ افزا امر ہے۔ توقع رکھی جانی چاہیے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی اور اقتصادی تعاون میں اضافہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے خیرو برکت اور ترقی و استحکام کا باعث بنے گا۔