(آخری قسط )
جُمہورِ امت کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن وحدیث لازم وملزوم ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (١)”سنو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اُس کی مثل بھی اُس کے ساتھ ہے، وہ وقت دور نہیں کہ ایک شخص شکم سیر اپنی مَسند پر ٹیک لگائے ہوگا اور کہے گا:اس قرآن کو لازم پکڑو، پس جو کچھ تم اُس میں حلال پائو، اُسے حلال مانو اور جو کچھ تم اُس میں حرام پائو، اُسے حرام مانو، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھا، کُچلیوں (سامنے کے دانتوں) سے شکار کرنے والے درندے (اور دوسری روایت میں پنجوں سے شکار کرنے والے پرندے) حلال نہیں ہیں، (ابودائود:4604)”۔ (٢) ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ وقت دور نہیں کہ ایک شخص کو میری حدیث پہنچے گی، وہ اپنی مَسند پر ٹیک لگائے ہوگا اور کہہ رہا ہوگا: ہمارے اور تمہارے درمیان (فیصَل) کتاب اللہ ہے، سو ہم اُس میں جو حلال پائیں گے اُسے حلال جانیں گے اور جو حرام پائیں گے، اُسے حرام جانیں گے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز کو حرام قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے اللہ کا حرام قرار دینا، (ترمذی: 2664)”۔ خود قرآنِ کریم نے بتایا کہ حلال وحرام کو طے کرنے کا تشریعی اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے، چنانچہ ارشاد ہوا: ”(اُس نبی کی شان یہ ہے کہ) وہ اُن کے لیے پاک چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں، (الاعراف: 157)”۔
یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ قرآن نہ ہم پر نازل ہوا ہے، نہ ہم نے اترتے دیکھا ہے، یہ بھی اللہ کے رسول نے بتایا: ”یہ اللہ کا کلام ہے”۔ پس جن صحابۂ کرام کی نقل وروایت سے ہمیں قرآن کا قرآن ہونا معلوم ہوا، اُنہی کے واسطے سے احادیثِ مبارکہ کا کلامِ رسول ہونا معلوم ہوا، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے تواترِ قولی اور فعلی کو نظر انداز کردیا جائے، تو فرض عبادات پر عمل کرنا بھی مشکل ہو جائے۔
جنابِ غامدی ازخود جن دینی امور کو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود رکھتے ہیں، اُن میں جہاد بھی ہے اور کافر کو کافر نہ کہنا بھی ہے، جبکہ اُن کے نزدیک اتمامِ حجت کے بعد جہاد بمعنی قتال منسوخ ہوگیا ہے۔ چنانچہ اُن کے شاگردِ خاص خورشید ندیم صاحب اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ پاکستان کی بھارت کے خلاف جنگ جہاد نہیں ہے، بلکہ یہ ملکی دفاع کی جنگ ہے، جبکہ ہماری مسلّح افواج کا موٹو ہے: ”ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ”۔ کون کافر ہے، کون مسلمان، غامدی صاحب کے نزدیک یہ اللہ کی عدالت میں قیامت میں طے ہوگا، ہم یہ طے کرنے والے کون ہیں، پس لازم ہے کہ آپ کفر کو کفر اور کافر کو کافر بھی نہ کہیں، اُن کے نزدیک جھوٹے مُدّعیِ نبوت مرزا غلام قادیانی کے لیے بھی گنجائش موجود ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے کہا: مرزا غلام قادیانی کے اقوال کو بھی شیخِ اکبر اور دوسرے صوفیۂ کرام کے شطحیات پر محمول کیا جائے۔ جنابِ غامدی کے نزدیک سنّت کی تعریف جمہورِ امت سے جدا ہے، اُن کے نزدیک سُنّت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیّن صلی اللہ علیہ وسلم تک چند امور کا نام ہے، پہلے انھوں نے سنّتوں کی تعداد 27مقرر کی اور پھر بتدریج کم کرتے کرتے 17تک آگئے اور جمہورِ امّت کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شارع کی حیثیت سے جو شعار قائم کیے، وہ سب سنّت ہیں، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات وخصائص اتباع کے لیے نہیں ہیں، بلکہ آپ کے مقام ومرتبہ کو پہچاننے کے لیے ہیں۔ قرآن کی صریح آیت ہے: ”ان سب رسولوں (میں سے) ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، (البقرة: 253)”اور خود سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”مجھے (دیگر) انبیائے کرام علیہم السلام پر چھ چیزوں میں فضیلت عطا کی گئی ہے(اور پھر آپ نے اُن کا بیان فرمایا)، (مسلم: 523)”، جبکہ جنابِ غامدی انبیائے کرام علیہم السلام کے درمیان تفضیل وتفاضل کے قائل نہیں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”(اے میرے امتیو!) تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو، اُن کو داڑھ سے مضبوطی سے پکڑ لو اور ہاں! ایسے نئے امورسے (جن کی اصل سنّت میں نہ ہو) بچے رہو، کیونکہ ہر وہ بدعت (جو کسی سنّت کو مٹادے) گمراہی ہے، (ابن ماجہ: 42)”۔ اسی لیے جمہورِ امت کے نزدیک دین قرآن تک محدود نہیں ہے، بلکہ دین قرآن وسنّت کے مجموعے کا نام ہے، سنّت قرآن کی ضد یا قرآن کے مقابل نہیں ہے، بلکہ یہ قرآنِ کریم کی تبیِیْن ہے، تشریح ہے اور اس کی عملی تعبیر اور تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”(اے رسولِ مکرّم! ) آپ (وحیِ ربانی کو) جلد یاد کرنے کے شوق میں اپنی زبان کو جلدی حرکت نہ دیا کیجیے، اسے آپ کے (دل ودماغ میں) محفوظ کرنا اور اسے آپ کو پڑھاناہمارے ذمۂ کرم پر ہے، پس جب ہم (بزبانِ جبرائیل ) اسے پڑھ لیں تو آپ(اطمینان وقرار کے ساتھ) ان کی متابعت میں پڑھ لیا کیجیے، پھر اس (کے معانی) کو آپ پر ظاہر کرنا بھی ہمارے ذمے ہے، (القیامہ: 16-19)”۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں معانی کاجو بحرِ زَخّارموجود ہے، اس کی تفصیل وتشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل سے معلوم ہوگی، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جا بجا نماز کا حکم دیا، متفرق مقامات پر اس کے بعض ارکان تکبیر، قیام، قرا ء ت، رکوع اور سجود کا ذکر فرمایا، لیکن نماز پڑھنے کا پورا طریقہ قرآنِ کریم نے تعلیم نہیں فرمایا، یہ امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعامل سے معلوم ہوا، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”تم جیسے مجھے نماز پڑھتا دیکھو، ویسے ہی نما ز پڑھو، (بخاری:631)”۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”پس جب تم زمین میں سفر کرو اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں مشکل میں ڈال دیں گے تو تم پر کوئی حرج نہیں کہ نماز میں قصر کر دو، (النسآئ: 101)”۔ اس سے بظاہر یہ سمجھ میں آتا تھا کہ خطرات کی صورت میں تو مسافرنماز میں قصر کر سکتا ہے، لیکن حالتِ امن میں کیا یہی حکم ہے، صورتِ حال واضح نہیں ہو رہی تھی، حدیث پاک میں ہے: ”یعلیٰ بن اُمیّہ نے حضرت عمر بن خطاب سے پوچھا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اگر تمہیں کفار کی جانب سے خطرات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز کو قصر کردو، اور اب لوگ محفوظ ہوگئے ہیں”، توحضرت عمر نے کہا: جس بات پر تمہیں تعجب ہوا، مجھے بھی ہوا تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صدقہ (رعایت) ہے جو اللہ نے تمہیں عطا کیا تو اس کے اس صدقے کو قبول کرو، (ترمذی: 3034)”۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا معمول تھا کہ دین کی کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کرتیں، پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے حساب لیا گیا، وہ مبتلائے عذاب ہوگا، وہ بیان کرتی ہیں: میں نے پوچھا: اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:عنقریب ان سے آسان حساب لیا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اُن کی بابت ہے جن کی محض پیشی ہوئی، لیکن جس پر تفصیلی جرح ہوئی تو وہ ہلاک ہو جائے گا، (بخاری: 103)”۔ آج کل کی زبان میں اسے ”منی ٹریل” کہتے ہیں۔
علامہ سید شریف جرجانی لکھتے ہیں: ”شریعت میں سنّت سے مراد وہ راستہ ہے جو دین میں اُن امور کی بابت مقرر کیا گیا ہے جو فرض اور واجب نہیں ہیں۔ پس سنّت وہ ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشگی فرمائی اور کبھی چھوڑ بھی دیا، اگر یہ ہمیشگی عبادت کے طور پر ہو تو انھیں ”سُنَنِ ہُدیٰ” کہتے ہیں اور اگر عادت کے طور پر ہو تو انھیں ”سننِ زوائد” کہتے ہیں۔ سُنَنِ ہُدیٰ کو تکمیلِ دین کے لیے قائم کیا جاتا ہے اور اس کا ترک کراہت یا اِسائَ ت کا سبب بنتا ہے اور سُنَنِ زوائد وہ ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہونا اچھی بات ہے اور ان کا ترک کراہت اور اِسائَ ت کا باعث نہیں ہوتا، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست وبرخاست، لباس اور کھانے پینے کی عادات وغیرہ۔ سُنَنِ ہُدیٰ کو سُنَنِ مؤکّدہ بھی کہتے ہیں، جیسے اذان، اقامت، کُلّی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور سُنَنِ زوائد جیسے: منفرد کا اذان کہنا، مسواک کرنا اور نماز اور خارجِ نماز میں بعض امور کی رعایت کرنا، اس کا ترک سزا کا موجب نہیں ہوتا، (کتاب التعریفات، ص: 88)”۔

