دہشت گردوں کے خلاف دوٹوک عزم کا اظہار، نئی عسکری ڈاکٹرائن

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے قومی سلامتی کی صورت حال پر دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے بیان دیا کہ ”آگ اور پانی کا کھیل مزید نہیں چل سکتا”۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کا سر نہ کچلا گیا تو ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی۔ یہ بیان اس پس منظر میں سامنے آیا ہے کہ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف نئے اور مؤثر عسکری اقدامات کا آغاز کر چکی ہے۔ گزشتہ دو دنوں میں پاک فوج کے آپریشن ایک باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ان کارروائیوں کا آغاز اورکزئی میں سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد ہوا۔ پاک فوج نے فوری اور سلسلہ وار جوابی آپریشن کیے جس کے نتیجے میںحملوں میں ملوث تیس بھارتی سرپرستی یافتہ ”خوارج” کو ان کے انجامِ بد سے دوچار کیا گیا۔ اس کے اگلے مرحلے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاک فضائیہ نے افغان دارالحکومت کابل ودیگر مقامات پر متعدد اہم ترین اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ ملکی و غیرملکی ذرائع اور افغان صحافیوں کے مطابق کابل شہر کے وسط میں پاک فضائیہ کے تیر بہدف حملے میں کالعدم ٹی ٹی پی کا سربراہ نور ولی محسود نہایت قریبی ساتھیوں کے ہمراہ مارا گیا۔ نور ولی محسود کی کابل میں موجودگی افغان حکومت کے اس دعوے کی عملاً نفی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی پشت پناہی میں ملوث نہیں۔ خوارج کا یہ سرغنہ نہ صرف ہزاروں بے گناہ افراد کے قتل میں ملوث تھا بلکہ یہ بھارت کے اتحادی کے طورپر پاکستان کے خلاف بالواسطہ جنگ کا سب سے بڑا مہرہ بھی تھا۔

افغانستان میں گھس کر دہشت گردوں کے اہم ترین افراد اور ٹھکانوں کو نشانہ بنانا دراصل اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ عسکری سطح پر حکمتِ عملی یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ ریاست اب دہشت گردوں کے حملوں کا بدلہ فوری اور فیصلہ کن انداز میں لے رہی ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اب خطے میں ”نیا معمول” قائم کررہا ہے۔ پالیسیوں کی تبدیلی کے اثرات سیاسی سطح کے بیانات اور اقدامات سے بھی ظاہر ہورہے ہیں جیسا کہ وزیردفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں واضح کیا ہے کہ سابق حکومت کی جانب سے ہزاروں طالبان کو مصالحت کے ساتھ پاکستان میں لا کر بسانے کی پالیسی ملک کے لیے خونریزی کا سبب بنی اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ مہمان جو میزبانوں کا خون بہاتے ہیں، اپنے گھروں کو واپس جائیں۔ انھوں نے پاکستان میں بطور مہمان دو سے تین نسلوں کے ساتھ مقیم افغان مہاجرین کے متعلق غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ ان کی مزید خاطر داری نہیں کی جا سکتی۔ انھیں بہرصورت یہاں سے جانا ہوگا کیونکہ ان کے مختلف طبقات کی جانب سے دہشت گردوں کی سہولت کاری اور فساد پھیلانے میں ان کا کردار اور رویہ واضح ہو چکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف وزیراعظم اور عسکری قیادت کا عزم یکسو ہے کہ فتنۂ خوارج کا مکمل اور ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جائے۔ وزیراعظم واضح کر چکے کہ خوارج کے سہولت کار بھی ان کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ مقامی سہولت کاری کے بغیر سیکورٹی فورسز کا مقابلہ اور ان پر حملے ممکن ہی نہیں۔ اس تناظر میںسیاسی و عسکری قیادت کا موقف یہی دکھائی دیتا ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے انھیں سیاسی، مذہبی اور نظریاتی کمک فراہم کرنے والوں اور ان کے حق میں نرم گوشہ رکھنے یا رعایت دینے کے حامی سیاست دانوں اور مذہبی لوگوں کا بھی کڑا احتسا ب کیا جائے گا کیونکہ اس سہولت کاری کی قیمت ملک و قوم کے محافظوں کو اپنے خون سے ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

کسی بھی ریاست کا پہلا فریضہ اس کے شہریوں کی حفاظت ہے۔ لہٰذا ایسے افراد یا گروہوں کو پناہ دینا جو میزبان ملک کے لوگوں کا خون بہائیں، نہ صرف ملکی قوانین بلکہ اسلامی تعلیمات میں بھی عدل اور احسان کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس کے خلاف سخت ریاستی کارروائی مکمل طور پر جائز اور ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی طبقات کی حمایت اور ریاست کے دفاع اور قوم کے تحفظ کے اہم ترین فریضے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک فوج نے نئے دفاعی خطوط مرتب کر لیے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی نئی عسکری ڈاکٹرائن خطے میں ایک زلزلہ خیز تبدیلی کا مظہر ثابت ہو سکتی ہے۔ افغانستان میں گھس کر پاک فضائیہ کی جان دار اور شان دار کارروائی اور دہشت گردوں کے سروں پر حملہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان نے اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے مدافعانہ جنگ لڑنے کی پرانی حکمتِ عملی کو ترک کر دیا ہے اور اب اس نے جارحانہ اور تادیبی خودمختاری کا نیا اصول قائم کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام بھارتی حمایت یافتہ، افغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف جنگی ضابطوں کو ازسرِ نو متعین کررہا ہے۔ یہ تبدیلی اس لیے بھی ناگزیر تھی کہ پاکستان کو اپنی تاریخ میں پہلی بار تین محاذوں مشرق میں بھارت، مغرب میں افغان ٹی ٹی اے اور اندرونِ ملک بغاوتوں پر بیک وقت خطرات کا سامنا کررہا ہے۔ کابل پر فضائی حملہ ایک سخت پیغام ہے کہ افغانستان بھارت کی پراکسی جنگوں میں غیرجانب دار رہے۔ پاکستان اب سرحدوں سے پار جا کر اپنے دشمنوں کا پیچھا کرنے کی صلاحیت اور اعتماد رکھتا ہے۔ یہ دراصل طویل مدتی امن کے لیے ایک مختصر مدتی تلخ مگر ضروری دوا ہے۔

سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں اور مبصرین کی تشریحات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ واقعات اور پاک فوج کی جانب سے افغانستان کی سرزمین پر فضائی حملہ، پاکستان کی قومی سلامتی کی پالیسی میں ایک نئے اور غیرمبہم عہد کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ صرف دہشت گردوں ہی نہیں بلکہ ان کے پشت پناہوں یعنی بھارت اور اسرائیل کے لیے بھی واضح تنبیہ ہے۔ یہ بات اب تسلیم کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت مربوط انداز میں فیصلے کر رہی ہے۔ پاکستان اندرونی اور مغربی خطرات سے نمٹ رہا ہے اور مشرقی خطرات سے نمٹنے کے لیے اس نے اپنی تزویراتی سفارت کاری کو بھی مضبوط کیا ہے۔ سعودی عرب جیسے اتحادیوں کے ساتھ مضبوط دفاعی تعلقات کا قیام اور بنگلادیش جیسے مسلم ممالک کے ساتھ بڑھتا ہوا دفاعی تعلق ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ایک جامع، متوازن اور دور اندیش پالیسی کے تحت اپنی اندرونی و بیرونی سلامتی کو یقینی بنارہا ہے۔ وہ مہمان نوازی جو اب محسن کشی میں بدل چکی ہے، اسے منطقی انجام تک پہنچانے اور دہشت گردی کا سر کچلنے اور سہولت کاروں کو بے نقاب کرنے کا دوٹوک عزم عسکری ترجمان کی گفتگو سے مزید واضح ہورہا ہے۔ وزیراعظم کا دوٹوک موقف اور عسکری قیادت کا نیا عسکری نظریہ یہ اطمینان دلاتا ہے کہ ریاست اب مدافعانہ کے بجائے فیصلہ کن اور جارحانہ دفاعی حکمتِ عملی اپنا رہی ہے۔ کروڑوں مسلمانوں کے تحفظ پر مشتمل حکمتِ عملی اسلامی تعلیمات کے ساتھ گہری مطابقت رکھتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پالیسی کو مزید جامع، عادلانہ اور بھرپور بنایا جائے تاکہ قوم کے تمام طبقات سیاسی و عسکری قیادت کے شانہ بشانہ ہوکر ملک و قوم کے دفاع کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔