پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں اور بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کے طور پر استعمال کرنا بھی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دہشت گردی میں اضافے کی وجہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ افغان مہاجرین کے حوالے سے گمراہ کْن باتیں کی جا رہی ہیں۔ خیبر پختو نخوا میں دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے بہت سے خوارج کا تعلق افغانستان سے ہے، آپریشن میں ہلاک ہونے والے بہت سے دہشت گردوں سے امریکی اسلحہ برآمد ہوا۔ افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے شواہد اور ثبوت بھی موجود ہیں، ہم نے ہر فورم پر اس حوالے سے آواز اٹھائی اور بات چیت بھی کی گئی۔
پاک فوج کے ترجمان نے ملک کی داخلی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور خطرات اور ان کے اسباب و علل سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینے سے بحث و نظر کے بہت سے دریچے کھولے جاسکتے ہیں تاہم اس امر میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس پریس کانفرنس کے دوران قومی سلامتی کے نازک مسئلے سے متعلق افواج پاکستان کا درد دل بڑی وضاحت اور صفائی کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کیا ہے۔ آج کراچی سے لے کر اسلام آباد اور گلگت تک قومی منظر نامے پر ایک طائرہ نگاہ دوڑانے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وطن عزیز پاکستان اس وقت کس طرح کی خطرناک فالٹ لائنز پر کھڑا ہے۔ کہیں صوبائیت اور لسانیت کے نام پر نفرتوں کا بازار گرم ہے تو کہیں فرقہ واریت کے عنوان سے معاشرے کے مختلف طبقات کو باہم لڑوانے کی سازشیں ہورہی ہیں ، کہیں سیاسی دھینگا مشتی ہورہی ہے تو کہیں مذہبی احتجاج کے نام پر شہریوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے، ان تمام خطرات میں سب سے سنگین خطرہ عسکریت پسندی کا وہ ناگ ہے جس نے اب ایک خوفناک اژدھے کی شکل اختیار کرلی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہمارے بچوں، جوانوں، خواتین اور بزرگوں کا خون پی رہا ہے۔ انتہائی دکھ اور شدید اذیت کی بات یہ ہے کہ اس عفریت کو وہاں سے دودھ پلاکر اور پال پوس کر ہماری طرف بھیجا گیا ہے جہاں کے باسیوں کے لیے ان کے مشکل وقت میں ہمیں نے اپنی باہیں کھولی تھیں اور انہیں اپنے وجود کا حصہ بنایا تھا۔ پاکستانی قوم نے اسلامی اخوت اور کلمے کے رشتے کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ ایک کروڑ کے قریب افغانوں کو اپنی سرزمین میں پناہ دی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ روس کے خلاف جہاد ہو یا امریکا کے خلاف مزاحمت، دونوں مراحل پر پاکستان کے عوام بالخصوص نوجوانوں نے عملی میدان میں افغانوں کا ساتھ دیا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کوئی گھر اور خاندان ایسا نہیں ہے جس کا کوئی فرد روس کے ساتھ جنگ یا نیٹو کے خلاف مزاحمت کے دوران افغانستان میں شہید، زخمی، گرفتار یا لاپتا نہ ہوا ہو۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں تو خود ریاست پاکستان بھی عملاً شریک تھی اور دنیا میں ایسے مبصرین کی کمی نہیں جن کی سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ سوویت یونین کی شکست میں اصل کردار ہی پاکستان کے ریاستی اداروں بالخصوص آئی ایس آئی کا رہا۔
نائن الیون کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو اگر چہ پاکستان کے اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے معروضی حالات سے مجبور ہوکر یا اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کی خاطرافغان پالیسی تبدیل کی اور اتحادی افواج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تاہم دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت اس پالیسی کے خلاف تھی۔ بلکہ پاکستان کے ریاستی اداروں پر بھی افغان طالبان کی خفیہ مدد کرنے اور ان کے رہنماؤں کو پناہ دینے کے الزامات بھی لگے۔ افغان طالبان کے موجودہ امیر ملاہبة اللہ اور وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی سمیت بیسیوں رہنما آخر تک بلوچستان میں مقیم رہے۔ طالبان اپنے زخمیوں کا علاج بھی بلوچستان اور کراچی کے ہسپتالوں میں کرواتے رہے جو ظاہر کہ پاکستانی اداروں کی نظروںسے پوشیدہ نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں یہ الزام لگاکر پاکستان کی فوجی امداد بند کردی تھی کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ ڈبل گیم کیا ہے۔ یہ امداد آج تک بحال نہیں ہوئی اور امریکا میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں امریکا کی ناکامی کا ذمہ دار بھی پاکستان ہی ہے۔
افغانستان میں جب اتحادی افواج کو شکست ہوگئی اور طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو پاکستان کی حکومت اور عوام دونوں نے اس پر مسرت کا اظہار کیا اور پاکستانی قوم نے یہ توقع باندھ لی کہ کابل میں اسلامی حکومت کا قیام پاکستان کے لیے بھی خیرو برکت اور امن اور استحکام کا باعث ہوگا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ افغانستان کی نئی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان سے آنکھیں پھیر لیں اور پاکستان کے اس انتہائی سادہ اور معقول مطالبے کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھا کہ اب افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں نے متعدد اعلیٰ سطحی وفود بھیجے، انتہائی معتبر اور موقر علماء کرام کابل و قندہار گئے اور افغان انتظامیہ سے اپیلیں کیں کہ پاکستان کی حدود میں دہشت گردی و تخریب کاری میں ملوث گروہوں کو جو کہ عالمی و علاقائی اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر اور ان کی فنڈنگ سے پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں، افغان سرزمین میں پھلنے پھولنے کی اجازت نہ دی جائے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان میں امن و ترقی دیکھنے اور وہاں سرمایہ کاری کی خواہش رکھنے والے دیگر ممالک روس اور چین وغیرہ نے بھی افغان حکومت سے بار ہا مطالبہ کیا کہ وہ کابل اور دیگر شہروں میں بیٹھ کر پڑوسی ممالک میں تخریب کاری کے لیے ٹیمیں بھیجنے والے ٹی ٹی پی کمانڈروں کو لگام دے مگر ایسا لگتا ہے کہ افغان انتظامیہ کسی اور دنیا میں رہ رہی ہے۔ اسے اندازہ نہیں ہے کہ پڑوسیوں کے گھر میں آگ لگانے والوں کو پناہ دینے کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ کس قدر تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ اسلام اور جہاد کے نام پر اقتدار میں آنے والے کابل کے حکمران آج صرف اور صرف پاکستان کے بغض میں بھارت کی اس حکومت کی گود میں جاکر بیٹھ گئے ہیں جس کی دنیا میں شناخت ہی اسلام دشمنی کے حوالے سے ہے، جس نے اپنے ملک میں رہنے والے بیس کروڑ مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے اور جس کے رہنما صبح و شام اسلام اور جہاد کے خلاف زہر اگل رہے ہوتے ہیں۔
اس منظر نامے میں پاکستان کے پاس اب کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کا دفاع کرنے اور اپنی داخلی سلامتی یقینی بنانے کے لیے ہر انتہا تک جائے۔ بھارت اگر پاکستان سے کئی گنا بڑی عسکری طاقت رکھنے کے باوجود جنگ کے میدان میں پاکستان کو زیر نہیں کرسکا تو بھارت کے اشارے پر ناچنے والے دیگر گروہ اور عناصر بھی پاکستان کو کوئی گزند نہیں پہنچاسکتے البتہ اس سے ان کا اپنا چہرہ دنیا کے سامنے اور خود اپنے عوام کے سامنے ضرور بے نقاب ہوجائے گا۔ افغان عبوری انتظامیہ کو جتنی جلدی اس حقیقت کا ادراک ہوجائے،اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہوگا۔