شرم الشیخ مذاکرات، امن کی موہوم امید

مصر کے معروف سیاحتی مقام شرم الشیخ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے پر فیصلہ کن بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کا خاتمہ اور قیدیوں کا تبادلہ ہے۔ امریکی صدر نے مذاکرات میں شریک فریقین کو تنبیہ کی ہے کہ وہ جلد از جلد کسی حتمی نتیجے تک پہنچیں۔ انھوں نے حماس کو دھمکی دی کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اس کے نتائج نہایت سنگین ہوں گے۔ غزہ میں امن کے قیام سے متعلق مذاکرات کا یہ دور اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے نوے فیصد معاملات طے پانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس تناظر میں، یہ مذاکرات علاقائی سلامتی اور بین الاقوامی سیاست کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتے ہیں، جہاں تمام فریق بشمول ثالث ممالک مصر اور قطر اپنے سیاسی و عسکری مفادات کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش میں ہیں۔ ان مذاکرات میں، جہاں ایک طرف فوری جنگ بندی، قیدیوں کا تبادلہ اور اسرائیلی فوج کا انخلا زیرِ بحث ہے، وہیں دوسری طرف غزہ کی طویل المدتی انتظامیہ اور وہاں اسرائیلی فوج کی مستقل تزویراتی موجودگی جیسے سوالات بھی اپنی تمام تر حساسیت کے ساتھ موجود ہیں جو امن کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

شرم الشیخ مذاکرات کی بنیاد امریکی صدر ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کا بڑا مقصد غز ہ پر ماہرین کی عارضی حکومت اور حماس کے عسکری و انتظامی کردار کا خاتمہ ہے۔ تجزیہ کار وں کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ دراصل بنیادی طور پر فلسطینی مزاحمت کی سیاسی جڑوں کو کاٹنے کی ایک کوشش دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات ایک اصول کے طورپر تسلیم کی جاتی ہے کہ کسی بھی علاقے میں حکمرانی کا حق اس کے باشندوں کو ہوتا ہے، اور وہاں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ جمہوریت کی رو سے عوامی رائے کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس معنی میں امریکی صدر ٹرمپ کا یہ الٹی میٹم کہ اگر حماس نے غزہ کا کنٹرول چھوڑنے سے انکار کیا تو اس کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا، ناصرف غیر منصفانہ ہے بلکہ مذاکرات کے ماحول کو بھی زہر آلود کرتا ہے۔ منصوبے کے مدعیٰ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر کے نزدیک فلسطین کا تما م علاقہ اسرائیل کے تحت ہی ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود امریکا اور اسرائیل کا مذاکرات پر مجبور ہونا ہی مزاحمت کی کامیابی کی علامت ہے۔ یہ کامیابی مسلح جدوجہد کی وجہ ہی سے حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے حماس کی جانب سے مزاحمت کو ترک کر دینے کا فیصلہ بظاہر مشکل ہے۔ اگرچہ حماس کے ذرائع سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ وہ بین الاقوامی نگرانی میں غیر مسلح ہونے پر بھی رضامند ہو گئی ہے لیکن ایک تنظیم کے بظاہر خاتمے سے بھی، مسلح جدوجہد یا مزاحمت ختم نہیں ہوگی بلکہ یہ کسی نئی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ عرب تجزیہ کاروں کے مطابق غزہ کا کنٹرول کسی قابلِ اعتماد فریق کے سپرد کرنے پر رضامندی دراصل مزاحمت کا ایک ایسا حکمت آمیز سیاسی قدم ہے جو قابض قوت کو مجبور کرتا ہے کہ وہ یا تو امن معاہدہ قبول کر کے اپنی سکیورٹی شرائط میں کچھ لچک دکھائے، یا پھر اسے مسترد کر کے دنیا کے سامنے یہ اعتراف کر لے کہ وہ مزاحمت کو اپنے اعلانات کے مطابق شکست دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔

اس موقع پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غزہ کے عوام نے اپنی مزاحمتی تحریک کو ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر قبول کیا ہے، اور اس قوت کو بین الاقوامی دباؤ یا عسکری طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش نہ صرف پائیدار امن کے خلاف ہے بلکہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ حماس کا یہ مطالبہ کہ غزہ کے مستقبل سے متعلق امور پر مشترکہ قومی موقف اپنایا جائے، جو بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر ہو، سراسر معقول ہے اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیے تاکہ طویل المدتی امن کی بنیاد رکھی جا سکے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق انخلا کا وعدہ کرنے کے باوجود تین تزویراتی مقامات (بفر زون، فیلاڈلفیا راہداری، اور تلہ 70) پر قابض افواج کی موجودگی امن معاہدے کی روح کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ اگر یہ شرط برقرار رہی تو امن معاہدہ طے پانا مشکل ہوگا۔ منصفانہ معاہدے میں فوج کا مکمل انخلا اور غزہ کی سرحدوں کا مکمل طور پر فلسطینی انتظام میں آنا ازحد ضروری ہے۔ مذاکرات میں شامل مسلم ممالک کو ایک ایسے فریم ورک پر زور دینا چاہیے جو مکمل اسرائیلی انخلا، غزہ کی بحالی، اور فلسطینی عوام کے سیاسی حقوق کی ضمانت دے۔ اگر وہ صرف موجودہ جنگ بندی کو ایک کامیابی سمجھ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں، تو یہ مستقبل میں اسی بحران کی نئی صورت گری کا باعث بنے گا۔

شرم الشیخ میں جاری مذاکرات دراصل انسانی تاریخ کا ایک اہم معاملہ حل کرنے کی جانب پیش رفت ہے۔ اس وقت جبکہ دنیا کی بڑی قوتیں اور افواج دو سال کی مسلسل جنگ کے باوجود بھی ایک چھوٹی سی مزاحمتی قوت کا خاتمہ نہیں کر پائیں، انسانی ہمت، پامردی اور استقلال کی ایک نادر لیکن دردناک تصویر زمانے کے صفحے پر نقش ہو رہی ہے۔ تاریخ اس لمحے کو استقامت کی علامت کے طور پر یاد رکھے گی۔ اس صورتِ حال میں، تمام متعلقہ فریقوں کو انصاف اور حق کی میزان کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مذاکرات کا یہ عمل، کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر، اس بات کا ثبوت ہے کہ طاقت کے تمام تر استعمال کے باوجود، حقیقی سیاسی حل اسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب کوئی قوم عزت کی زندگی یا عزت کی موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جنگوں کا فیصلہ مذاکرات اور فریقین کے حقوق کے احترام سے ہی ممکن ہو سکتا ہے، لیکن طاقت کی زبان سمجھنے والی اس دنیا میں دفاع کی قوت نہ ہو تو کمزور کی بات کوئی نہیں سنتا۔ بہرحال اب جبکہ مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے، مسلم امہ کو فلسطینی مزاحمت کے لیے خاص طورپر دعائیں کرنا چاہئیں تاکہ یہ عظیم جدوجہد رائیگاں نہ جائے اور اس کے ثمرات آنے والے وقت میں دکھائی دیں۔ ہر ایک ذمہ دار مسلم حکومت اور ہر مسلم حکمران پر یہ لازم ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کی ہمدردی اور ان کی حمایت کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور یہ معاملہ اور صرف بیانات کی حد تک محدود نہ رہے۔ امریکی اور اسرائیلی حکومتیں ایک صفحے پر ہیں۔ ٹرمپ اسرائیل کی بین الاقوامی سیاسی ساکھ کی بحالی کا دعوے دار ہے لیکن ٹرمپ اور انسانیت کے مجرم نیتن یاہو کے اپنے اپنے سیاسی مقاصد ہیں۔ ایسے میں عرب ممالک کو اپنے موقف میں مزید استحکام اور شفافیت لانی چاہیے۔ اگر مسلم ریاستوں نے مزاحمت کا کسی بھی حد تک ساتھ دیا تو مذاکرات سے امن کی امید وابستہ کی جا سکے گی بصورتِ دیگر امن کی یہ موہوم امید بہت جلد دم توڑ جائے گی۔ غزہ کے لوگوں کی دو سال کی تکالیف اور قربانیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ یہ مذاکرات محض سیاسی بازیگری کا اکھاڑہ نہ بنیں، بلکہ ان کے لیے پائیدار امن، بحالی، اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ ہموار کریں۔