الحمد للہ کہ غزہ میں دو سال سے جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے کی جانب ایک تاریخی پیش رفت ہوئی اور غزہ جنگ بندی سے متعلق معاہدے پر فریقین کی جانب سے آمادگی ظاہر کر دی گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ابتدائی اعلان کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے بھی ایک تفصیلی پریس ریلیز کے ذریعے ”غزہ جنگ بندی معاہدے” پر پہنچنے کی تصدیق کر دی ہے۔ تحریکِ مزاحمت کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایک جامع معاہدہ ہو رہا ہے جو شرم الشیخ میں ہونے والے سنجیدہ مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد غزہ میں نسل کشی کا خاتمہ اور غزہ کی پٹی سے قبضے یعنی غاصب اسرائیلی افوا ج کے انخلا تک پہنچنا ہے۔ اس معاہدے کے تحت فوجوں کا انخلاہوگا۔ انسانی امداد کی فراہمی ہوگی اور قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔ حماس نے تصدیق کی ہے کہ یہ پیش رفت قطر، مصر اور ترکی کی ثالثی اور صدر ٹرمپ کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ عالمی مبصرین کے مطابق اس تاریخی پیش رفت نے عالمِ عرب، اسلامی دنیا اور اسرائیل، سب کے لیے امن کی ایک نئی امید جگائی ہے۔ عرب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر یہ جامع معاہدہ مکمل طور پر نافذ ہو گیا تو یہ تباہ کن جنگ کے خاتمے کی طرف سب سے بڑی پیش رفت ثابت ہوگا۔
حماس کی پریس ریلیز اور مزاحمتی دھڑوں کے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کی نظر میں یہ معاہدہ محض ایک وقتی جنگ بندی نہیں، بلکہ ایک وسیع البنیاد حل کی طرف پیش قدمی اور قیام امن کی سنجیدہ کوشش ہے جس سے معاہدے کی غیر معمولی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ حماس کا مطالبہ ہے کہ ضامن ممالک یعنی امریکا، قطر، مصر اور ترکی قبضے کو معاہدے کے تقاضوں کو مکمل طور پر لاگو کرنے پر مجبور کریں تاکہ اسرائیل کو معاہدے سے انحراف کی کوئی گنجائش نہ ملے۔ ماضی میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی نے ہی اعتماد کو مجروح کیا تھا لہٰذا تجزیہ کار بھی اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ معاہدے کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اسرائیلی فوج کا انخلا ہو اور غزہ میں امدادی سرگرمیاں بلاروک ٹوک جاری رہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ نے صرف ”پہلے مرحلے” پر دستخط اور فوج کی ”متفقہ علاقوں تک انخلا” کی تصدیق کی ہے لہٰذا اس معاہدے کی کامیابی کا دار و مدار اس بات پر ہوگا کہ فریقین متن میں موجود ابہام کو کتنی جلدی دور کرتے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیلی فوج واقعی پورے غزہ سے انخلا کرے گی؟ حماس کا مطالبہ مکمل انخلا کا ہے اور اہلِ غزہ کی عظیم قربانیوں کا صلہ بھی اسی صورت مل سکتا ہے کہ جب انھیں مکمل آزادی اور خود مختاری دی جائے نہ کہ جزوی آزادی یا نیم خود مختاری جس میں جنگ کی تلوار ہمہ وقت سر پر لٹکتی رہے۔ امن کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیلی قبضے کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اور انخلا کو بین الاقوامی ضامنوں کی نگرانی میں مکمل کیا جائے تاکہ واپسی اور حملے کے امکانات نہ رہیں۔ عرب اور اسلامی دنیا کو فوری مالی امداد کے ذریعے غزہ کی مکمل تعمیر نو کو یقینی بنانا چاہیے۔ خوشی کے اس موقع پر غزہ کے لوگوں نے دنیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ ہر اس ہاتھ کا شکریہ جو اہل غزہ کے لیے عطیات اور مالی امداد لے کر بڑھا، جس نے بھوکوں کو کھلایا اور بچوں کی آہو ں اور سسکیوں کو اپنے سینے میں چھپایا۔ اہلِ غزہ نے تمام عالم عرب بلکہ پورے عالمِ اسلام کے دفاع کی خاطر ناقابل تصور قربانیاں دی ہیں۔ اب مسلم امہ کا فریضہ ہے کہ وہ ان کی اعانت کے لیے آگے بڑھے اور کسی بھی سیاسی شرط سے بالاتر ہو کر، جنگ کے زخموں کو بھرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔
غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا نے کے بعد وہاں خوشی، مسرت اور جشن کے مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلم امہ جس کا دل اہلِ غزہ کے ساتھ دھڑ ک رہا ہے، گزشتہ دو برسوں سے ان لمحات کی منتظر تھی۔ یہ وقت اللہ رب العزت کے حضور سجدہ شکر ادا کرنے کا ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں کو فتح سے نوازا۔ شام کے بعد غزہ میں امن کا قیام مسلم امہ کے لیے عظیم خوش خبری ہے۔ غزہ میں جنگ بندی اور فتح کا حقیقی مفہوم صہیونی منصوبوں کی ناکامی ہے۔ اہل غزہ اور مزاحمت نے اپنا کہا سچ کر دکھایا ہے۔ گو کہ ان کا مستقبل توقعات کے ساتھ ساتھ خدشات کے گہرے بادلوں سے ڈھکا ہوا ہے لیکن امید کی کرن بھی جگمگا رہی ہے۔ بہرحال دعا گو رہنا چاہیے کہ اہلِ غزہ کو طویل مدتی امن و سلامتی نصیب ہو اور جس مقصد کی خاطر اسماعیل ہنیہ، یحیی السنوار، ابو خالد محمد الضیف، انس شریف اور ابو عبیدہ جیسے کوہ گراں قربان ہوئے اور لاکھوں شہدا کے مقدس لہو سے غزہ کی سرزمین گل رنگ ہوئی، وہ جلد حاصل ہو اور جہدو عزیمت کا یہ سبق امت مرحومہ میں ہمت و استقلال اور جدوجہد کی نئی روح پھونک دے۔
جنگ کے خطرات اور پاکستان کا دوٹوک عزم
پاک فوج کے سربراہ، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی زیرِ صدارت ہونے والی 272ویں کور کمانڈرز کانفرنس کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق بھارت اگر کسی نئے معمول کی بات کرے گا تو پاکستان اس کا جواب ایک نئے اور مؤثر عسکری ردعمل سے دے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت بھارت کی سرپرستی میں سرگرم دہشت گرد گروہوں نے ملک میں حملے تیز کر دیے ہیں۔ اس کی تازہ مثال اورکزئی میں ہونے والا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہے، جس میں انیس دہشت گرد ہلاک ہوئے مگر لیفٹیننٹ کرنل جنید طارق سمیت 11جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ قابل افسران اور قیمتی جوانوں کی شہادتیں ملک وقوم کا بڑا نقصان ہے۔ غالباً اسی وجہ سے فوجی قیادت نے اب دہشت گردوں اور ان کے سیاسی سرپرستوں کے گٹھ جوڑ کو ہر سطح پر ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان نے خطے اور عالمی امن کے فروغ کے لیے اپنی سفارتی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے جن میں سب سے اہم مملکتِ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والا تاریخی مشترکہ دفاعی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے، اور بنگلہ دیش کے ساتھ دفاعی تعاون کے ابتدائی معاہدے کے ذریعے، پاکستان یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس کی قوت مستحکم دفاع اور سفارتی اتحادوں میں پنہاں ہے۔ دوسری جانب مقابلہ کرتے ہوئے بھارت افغانستان کے وزیرِ خارجہ کو سرکاری پروٹوکول دے رہا ہے۔ اگر افغان حکومت اس رویے سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا سوچ رہی ہے تو یہ بچگانہ انداز ہے۔ افغانستان کے راستے سے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بھارت کے جنگی جنون کی صورت حال میں اگلے چند دن جو کہ انتہائی اہم قرار دیے گئے ہیں، پاکستان کی نئی اور مؤثر عسکری حکمت عملی کے لیے ایک آزمائشی موقع ثابت ہو سکتے ہیں۔