غزہ میں جنگ بندی۔ خدشات، اثرات، مضمرات

آخر کار غزہ میں مظلوم فلسطینیوں پر طاری 2سال کی لہورنگ، بہت تکلیف دہ، خوفناک اور کربناک جنگ اپنے اختتام کو پہنچتی نظر آ رہی ہے۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ یہ سیاہ رات اب ختم ہونے کو ہے، نئی صبح کی کرنیں نمودار ہونے لگی ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر اس سب میں ابھی کئی خطرات، خدشات، تحفظات اور بہت سے اِفس، بٹس(ifs and buts) موجود ہیں۔ آج کے کالم میں ان سب کا جائزہ لیتے ہیں۔

معاہدے کا پہلا مرحلہ کیا ہے؟ صدر ٹرمپ کے بیس نکاتی امن معاہدے کے تحت یہ جنگ بندی یا فائر بندی ہو رہی ہے۔ حماس اور اسرائیل دونوں اس پہلے مرحلے پر رضامند ہوئے ہیں۔ یہ مذاکرات مصر میں اِن ڈائریکٹ یعنی بالواسطہ ہوئے ہیں، اس میں ثالث مصر، قطر اور ترکیہ تھے جبکہ مشرق وسطی کے لیے ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

معاہدے کے اہم نکات: اس پہلے مرحلے پر جن چیزوں میں اتفاق رائے ہوا ہے اس کے اہم نکات یہ ہیں۔ (1)فائر بندی۔ فریقین نے مکمل جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ اسرائیل اسے جنگ بندی کی بجائے فائر بندی کہہ رہا ہے، تاہم اس کے مطابق اب غزہ پر مزید بمباری یا حملے نہیں ہوں گے۔ (2)قیدیوں کا تبادلہ، تحریکِ مزاحمت یعنی حماس معاہدہ ہونے کے بہتر گھنٹوں یعنی تین دنوں (پیر کے روزتک) 20 اسرائیلی قیدیوں کو زندہ حالت میں رہا کرے گی، جبکہ اس کے بدلے اسرائیل 2000 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔ ان میں 250عمر قید کی سزا پانے والے اور 1700پچھلے دو برسوں کی جنگ کے دوران گرفتار ہونے والے فلسطینی شامل ہیں، تاہم یاد رہے کہ اسرائیل کی قید میں موجود معروف فلسطینی رہنما مروان برغوثی کو رہا کرنے پر اسرائیلی حکومت رضامند نہیں۔

حماس مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ حماس کو امریکا، عرب ثالثوں اور ترکیے کی جانب سے اس بات کی ضمانتیں ملی ہیں کہ غزہ میں جنگ مستقل طور پر ختم ہوگئی۔ خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ معاہدے میں رفح کراسنگ سے آمد اور خروج کا راستہ کھولنا شامل ہے، معاہدے کے تحت اسرائیلی جیل میں بند تمام فلسطینی خواتین اور بچوں کی رہائی شامل ہے۔ (3)لاشوں کی واپسی: امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق فریقین کے درمیان 28اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی واپسی پر بھی اتفاق ہوا ہے، جو مرحلہ وار عمل میں لائی جائے گی کیونکہ بعض کی شناخت اور مقامات کی تصدیق میں وقت درکار ہے۔ (4)امدادی سامان کی فراہمی، معاہدے کے مطابق 400ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوں گے جو خوراک، پانی، دوائیں اور تعمیراتی مواد لائیں گے۔ یہ تعداد ابتدائی پانچ دن کے بعد مزید بڑھائی جائے گی۔ اس وقت سب سے اہم یہی بات ہے کیونکہ فائربندی اور غزہ کے مکینوں کے لیے خوراک اور دیگر امدادی سامان پہنچنا اشد ضروری ہے۔ (5)بے گھر شہریوں کی واپسی، جنوبی غزہ سے بے دخل کیے گئے ہزاروں خاندانوں کو اپنے علاقوں میں فوری واپسی کی اجازت دی جائے گی، خاص طور پر شمالی اور وسطی غزہ میں۔

(6)اسرائیلی انخلا:امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نے وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی فوج کا انخلا 24گھنٹے کے اندر مکمل کر لیا جائے گا اور فوجی اہلکار طے شدہ حدِ فاصل تک پیچھے ہٹ جائیں گے۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اسرائیلی فوج کا انخلا غزہ کے مرکزی علاقوں رفح اور خان یونس وغیرہ سے ہوگا، مگر وہ غزہ کو مکمل طور پر نہیں چھوڑ کر جائیں گے بلکہ ییلو لائن سے پیچھے چلے جائیں گے، یہ نقشے پر ایک لکیر بنائی گئی ہے جس کے مطابق غزہ پر ترپن فیصد علاقے پر بدستور اسرائیلی فوج موجود رہے گی تاہم 47فیصد علاقہ خالی کر کے پیچھے ہٹ جائے گی۔ معاہدے کے مطابق جیسے جیسے اگلے مراحل شروع ہوں گے اور پیش رفت جاری رہے گی، اسرائیلی فوج مزید پیچھے ہٹتی جائے گی، حتی کہ مکمل انخلا ہوجائے۔

فریقین کیسے رضامند ہوئے ؟ بی بی سی اور دیگر عالمی نشریاتی اداروں کے مطابق صدر ٹرمپ نے اسرائیلی حکومت پر سخت دباو ڈال کر یہ معاہدہ کرایا ہے۔ نیتن یاہو اس پر ابتدا میں رضامند نہیں تھے، تاہم وائٹ ہاوس کے شدید دبائو کے بعد وہ کچھ پیچھے ہٹے اور یوں معاہدہ ہوا۔ حماس نے بھی پہلے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، تاہم صدر ٹرمپ کی جانب سے مکمل خاتمے کی شدید دھمکی اور پھر ثالث عرب ممالک کے دبائو کے پیش نظر اور غزہ میں فلسطینیوں کی تباہ حال حالت دیکھ کر بھی حماس کو لچک پیدا کرنا پڑی۔

نیتن یاہو کی حکومت میں شامل انتہائی سخت گیر دائیں بازو کی جماعت اس معاہدے کی مخالف ہے۔ یہ شدت پسند غزہ میں یہودی آبادکاری چاہتے ہیں اور ان کے خیال میں غزہ اور حماس کا مکمل خاتمہ ہو جانا چاہیے، تاہم حالات کے جبر نے معاہدے کے پہلے حصے پر عملدرآمد کرانے کی راہ ہموار کی ہے۔

امن معاہدے کو کون سے خطرات لاحق ہیں؟ خطرات کئی قسم کے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ تو اسرائیل اور وزیراعظم نیتن یاہو کی مسلسل عہد شکنی اور ناقابل اعتماد رویہ ہے۔ نیتن یاہو پہلے ہی جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکے ہیں۔ یہ خدشہ موجود ہے کہ جب حماس تمام اسرائیلی یرغمالی رہا کر دے گی تب اسرائیل اپنے وعدوں سے مکر کر پھر سے حملے شروع کر دے۔ حماس نے اس بارے میں عرب ثالثوں اور ترکیہ سے ضمانتیں مانگی ہیں، ظاہر ہے یہ ممالک اسرائیل پر اثر انداز ہونے کی طاقت نہیں رکھتے، انہوں نے بھی آگے امریکا اور صدر ٹرمپ سے ضمانت لی ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگلے فیز میں حماس کے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ حماس کہہ چکی ہے کہ اگر آزاد فلسطینی ریاست بنے تو وہ اپنے ہتھیار ڈال دے گی کیونکہ پھر حفاظت آزاد فلسطینی ریاست کا کام ہے، مگر ظاہر ہے اس وقت کون سی آزاد فلسطینی ریاست بننے جا رہی ہے۔ یہ مرحلہ یا خواب تو ابھی خاصے آگے کا ہے۔

ٹرمپ پلان کے مطابق اگلے مرحلے میں حماس کو غیر مسلح کر دیا جائے گااور پھر ایک غیر سیاسی فلسطینی ٹیکنوکریٹک کمیٹی پر مشتمل عبوری حکومت قائم ہوگی۔ یہی سب معاملات سنبھالے گی۔ اس کمیٹی کی نگرانی ایک پیس بورڈ کرے گا، جس کے سربراہ صدر ٹرمپ خود کرنے کے خواہش مند ہیں، تاہم وہ چاہتے ہیں کہ اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو بھی اہم کردار دیا جائے، مگر عرب دنیا میں ٹونی بلیئر کو امریکی ٹاوٹ ہی تصور کیا جاتا ہے تو ان کی مخالفت ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ غزہ کی تعمیر نو وغیرہ کے سب معاملات یہی پیس بورڈ ہی دیکھے گا۔ بہرحال اس پیس بورڈ کی نگرانی میں موجود غیر سیاسی فلسطینی ٹیکنو کریٹس پر مشتمل کمیٹی جو کچھ عرصہ عبوری حکومت چلائے گی، مگر آخرکار یہ پھر معاملات فلسطینی اتھارٹی کو سونپے گی جو نظم ونسق سنبھال لے گی۔ اس دوران فوری طور پر ایک انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف)قائم کی جائے گی جو جانچ شدہ فلسطینی پولیس کو تربیت دے گی۔ یہ فورس مصر اور اردن کی مشاور ت سے کام کرے گی۔ یہ اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدوں کی حفاظت بھی کرے گی اور غزہ میں جنگی سامان بھی داخل نہیں ہونے دے گی۔

یہ سب مختلف نوعیت کے مسائل اور تحفظات ہیں۔ بہت کچھ ابھی طے ہونا باقی ہے۔ اسرائیل کا رویہ، حماس کی قیادت کا ردعمل وغیرہ بہت اہم ہے، تاہم امید کا در کھل گیا ہے۔ فائر بندی ہونے سے، قیدیوں کے تبادلے، اسرائیلی فوج کے پیچھے ہٹنے، بے گھر فلسطینیوں کی اپنے گھروں میں واپسی، امدادی سامان کی آمد کا سلسلہ قائم ہونے سے بہت کچھ بہتر ہوگا۔ غزہ میں اس معاہدے پر جشن منایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر اسرائیل میں بھی خوشی منائی گئی، لوگ سڑکوں پر آئے۔ کچھ تو ان اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ ہیں، مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں خوشی ہے کہ چلو جنگ ختم تو ہوئی کیونکہ اسرائیلی فوج میں بڑا حصہ ریزرو آرمی کا ہے جو جنگ ختم ہونے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ امید کرنی چاہیے کہ معاملات ٹھیک سمت میں چلیں گے اور مظلوم فلسطینیوں کیلئے زندگی آسان ہوگی۔ ویسے یہ ضرور ہے کہ اسرائیل اور اس کا سفاک وزیراعظم اتنے بڑے ظلم اور 60، 70 ہزار جانوں کا لہو اپنے ہاتھوں پر لے کر بھی بچ نکلے گا۔ یہ انصاف تو نہیں، مگر قدرت تو بہرحال اپنا انصاف کرے گی۔ قدرت کے بے رحم انصاف اور مکافات عمل سے تو کوئی نہیں بچ سکا۔ نیتن یاہو کب تک بچے گا؟