اس سال سیلاب کی آفت نے پاکستان کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے 2022ء میں سندھ میں غیر معمولی سیلاب آیا تھا، مگر موجودہ سیلاب پورے پاکستان پر محیط رہا ہے۔ یہ قومی المیہ ہے اور قومی المیوں اور سانحات کا مقابلہ قومیں مل جل کر کرتی ہیں، لہٰذا اسے صوبائی تناظر کی بجائے قومی تناظر میں دیکھا جائے۔ ہاں! سیلاب کا مقابلہ کرنے یا سیلاب کی آفت سے عوام کا ممکن حد تک تحفظ کرنے میں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور لیا جانا چاہیے، کیونکہ ہر صوبے کی حکومت اپنی کارکردگی کے اعتبار سے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ جب ہم قومی آفتوں کو بھی صوبائی عصبیت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا بھی دفاع کرنے لگ جاتے ہیں، اس سے کارکردگی میں بہتری کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا: یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی قوم سے محبت کرتا ہے، کیا یہ عصبیت ہے، آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ ایک شخص ظلم میں اپنی قوم کا مددگار بن جائے۔” (ابن ماجہ: 3949)
مزید یہ کہ موسمی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر برفانی تودوں کے پگھلنے کے سبب بڑے بڑے سیلاب آ سکتے ہیں اوراس کے نتیجے میں خدانخواستہ ناقابلِ تصور تباہی اور بربادی آ سکتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب فساد برپا ہوگیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے ان بعض کرتوتوں کا مزہ چکھائے شاید کہ وہ (سرکشی سے) باز آ جائیں” (الروم: 41)۔ (2) ”اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان فرمائی جو (ہر لحاظ سے) امن واطمینان سے تھی، ہر جگہ سے اسے کشادہ روزی آتی تھی، پھر اس کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کے سبب ان کو بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھایا” (النحل: 112)۔
قدرتی آفات آنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں: ایک اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت اس کے تکوینی نظام میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، نِت نئے اسباب پیدا ہوتے ہیں اور ان کے نتیجے میں آفات، وبائیں اور سیلاب آتے ہیں، یعنی ان میں بظاہر بندوں کے کسی قصور کا دخل نہیں ہوتا، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہات ہوتی ہیں، آزمائشیں ہوتی ہیں یا قیامت کی یاد دہانی کے مناظر ہوتے ہیں۔ دوسرا ان حالات کے نمودار ہونے میں بندوں کی اپنی کوتاہیوں کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق اس وقت انسانیت اس دوسری صورتحال سے دوچار ہے، جدید صنعتی انقلاب کے نتیجے میں طرح طرح کی ضرر رساں گیسیں پیدا ہو رہی ہیں، جو قدرتی ماحول میں تبدیلیاں رونما ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اوزون ایک گیس ہے جو تین آکسیجن ایٹمز پر مشتمل ہوتی ہے، یہ زمین کے ماحول میں قدرتی طور پر پائی جاتی ہے اور زمین کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچانے کا سبب بنتی ہے۔ اوزون کی سب سے زیادہ مقدار زمین کے ”کرہ ہوائی” نامی حصے میں موجود ہوتی ہے۔ یہ زمین سے اوپر تقریباً 10سے 50کلو میٹر کی بلندی پر خلا میں واقع ہے، اس تہہ کو ”اوزون لیئر” کہا جاتا ہے۔ یہ سورج کی ان الٹرا وائلٹ شعاعوں کو جذب کرتی ہے جو انسانوں میں جلد کے کینسر، آنکھوں کے موتیا بند، فضائی آلودگی، سانس اور دمے کے مسائل اور دیگر اَمراض کا سبب بنتی ہیں، یہ پودوں اور سمندری حیات کو بھی نقصان سے بچاتی ہیں۔ گویا یہ سورج کی ضرر رسانی سے بچانے کیلئے ایک قدرتی دفاعی نظام ہے، پس مختلف صنعتوں سے ایسی ضرر رساں گیسیں پیدا ہوتی ہیں جو اس دفاعی تہہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں، سو قدرت کے نظام کے تحت سورج کی ضرر رسانی سے بچنے کیلئے جو دفاعی نظام تھا، اسے نقصان پہنچا رہی ہیں، اس کے نتیجے میں سورج کی برقی مقناطیسی شعاعیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ پس لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب قدرت کے دفاعی نظام میں خرابیاں رونما ہو رہی ہیں اور ان کے ممکنہ نقصانات خدانخواستہ بڑھتے چلے جائیں گے۔
یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ اوزون کو نقصان پہنچانے والی ان ضرر رساں گیسوں کی پیداوار میں ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا بڑا حصہ ہے، پاکستان کا حصہ تو ایک فیصد بھی نہیں ہے، لیکن پاکستان سب سے زیادہ نقصانات کی زد میں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک ان بے قصور ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کو اپنے پیدا کردہ خطرات سے بچانے کیلئے مالی اور فنی امداد دیتے، مگر وہ الگ تھلگ بیٹھے ہوئے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں، تاہم اس میں ہمارا اپنا بھی حصہ ہے۔ قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے اور شدید ترین بارشوں اور سیلابوں سے زمین کو کٹائو سے بچانے کا سبب قدرتی جنگلات تھے، انہیں ملک کے طاقتور اور بااثر لوگوں نے تباہ وبرباد کیا، ان میں ہر دور کے سیاستدان اور حکمران بھی شامل ہیں۔ پس یہی وہ طبقات ہیں جو قانون کو اپنی طاقت اور دبائو سے بے اثر کر دیتے ہیں یا اپنے حق میں من مانی تاویلات کا انبار لگا دیتے ہیں۔ ہمارا لڑکپن کے زمانے کا مشاہدہ ہے کہ جنگلات کا گھنا پن طوفانی بارشوں کے نتیجے میں پانی کے دبائو اور کٹائو کو روکنے کا سبب بنتا تھا۔ بڑے بڑے دیو قامت درختوں سے ٹکرا کر پانی پھیل جاتا تھا اور اس کے بہائو اور کٹائو کی طاقت کم ہو جاتی تھی، مگر اب جنگلات کے کٹائو اور تباہی کے سبب سیلابی پانی کے بہائو اور کٹائو کے راستے میں کوئی قدرتی رکاوٹ نہیں ہے۔ بعض جگہ کان کنی کی وجہ سے پہاڑ ختم ہو رہے ہیں، گنجے ہو رہے ہیں اور ان کا زمینی کٹائو آسان ہو گیا ہے۔ ان میں سنگِ مرمر، گرینائٹ، سیمنٹ کے کارخانوں اور کنکریٹ کیلئے جنگلات، پتھروں اور چٹانوں کا کٹائو شامل ہے۔ اب ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک سے سیمنٹ کی برآمد کے اسباب کیا ہیں، ہم یہ زرِ مبادلہ اپنے نقصان کی صورت میں کما رہے ہیں۔
تیسرا سبب جس کے پیدا کرنے کے ہم خود ذمہ دار ہیں، وہ یہ ہے کہ ماضی میں دریائوں کے پاٹ بہت وسیع تھے اور ان کے کنارے بنجر زمینیں تھیں، سو اگر کبھی طوفانی بارشوں یا برفانی تودوں کے پگھلنے کے سبب سیلاب آتا تو دریائوں کے کنارے یہ بنجر زمینیں اسے اپنے اندر سمونے کے قابل تھیں، مگراب نہیں رہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دریائوں کے پاٹ اور بیٹ پر تجاوزات ہیں، ان کے سبب دریائوں کے پاٹ تنگ ہوگئے ہیں اور اب وہ سیلابی پانی کو اپنے اندر سمونے کے قابل نہیں رہے۔ اس لیے یہ پانی دریائوں کے کناروں سے کٹائو کے سبب بستیوں اور آبادیوں میں پھیل جاتا ہے، آبادیوںاور مویشیوں کو بھی بہا کر لے جاتا ہے، لوگوں کے تمام اثاثے اور زندگی بھر کی کمائی آنِ واحد میں تباہ وبرباد ہو جاتی ہے، وہ خود بھی کبھی اس بہائو میں بہہ جاتے ہیں اور کبھی اپنی آنکھوں سے اپنی کائنات کو برباد ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ یہ منظر بھی ہم نے دیکھا ہے کہ بعض مقامات پر جب دریا خشک ہوتے ہیں تو لوگ وہاں آکر آباد ہو جاتے ہیں، جھونپڑیاں اور مکان بنا لیتے ہیں، دریائی پاٹ کی افتادہ زمینوں پر کاشت کرتے ہیں، مویشی پالتے ہیں اور پھر سیلاب سب کچھ بہا لے جاتا ہے اور ہر سال انہی چیزوں کا حکومت کو معاوضہ دینا پڑتا ہے۔ ایسے مناظر بھی سامنے آئے کہ لوگ جان بچانے کیلئے درختوں پر چڑھ گئے، لیکن وہاں زہریلے سانپ بھی تھے اور بعض صورتوں میں سیلابی پانی ان درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر بہا لے گیا اور وہ بھی ساتھ بہہ گئے۔ حکومتیں اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے متاثرین کو معاوضے دینے کیلئے یقینا کوئی فارمولا تو بنائیں گی، لیکن یہ وقتی سہارا ہوگا، مستقل اور دیرپا انتظامات کیلئے مستقل منصوبہ بندی، مؤثر حکمتِ عملی اور کثیر مالی وسائل درکار ہوں گے اور ظاہر ہے کہ ہمارے اقتصادی حالات کے پیشِ نظر یہ وسائل دستیاب نہیں ہیں، نیز یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ جو وسائل دستیاب ہیں اور لوگوں کی بحالی کیلئے مختص کیے جا رہے ہیں، ان میں بھی بدعنوانی، خیانتوں اور لوٹ مار کا تناسب کیا ہوگا۔