اقوام متحدہ کے وجود کا امتحان

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا ہے کہ فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسائل کیے بغیر امن ممکن نہیں، اقوام متحدہ مسائل کے حل کیلئے آگے آئے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ سے متعلق کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عاصم افتخار نے دنیا کی توجہ فلسطین اور جموں و کشمیر کے عوام کو درپیش غیر ملکی قبضے اور ان کے خودارادیت کے حق سے محرومی کی جانب مبذول کروائی۔پاکستانی مندوب نے عالمی برادری پر زور دیا کہ 21ویں صدی میں کسی بھی قسم کی نوآبادیاتی یا قابض طاقت کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ صرف ماضی کا باب نہیں، بلکہ آج بھی دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں جہاں اقوام غیر ملکی تسلط کا سامنا کر رہی ہیں، جن میں فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر سرفہرست ہیں۔

اقوام متحدہ کا قیام انسانیت کو جنگ و خونریزی سے بچانے اور تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کر کے دنیا میں استحکام یقینی بنانے کے عظیم مقصد کے تحت عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ ادارہ لیگ آف نیشنز کے ناکام تجربے کے بعد وجود میں آیا۔ دوسری جنگِ عظیم کی ہولناکیوں کے بعد عالمِ انسانیت نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ ایسی تباہی نہیں ہونی چاہیے، اس لئے اقوام متحدہ کو اس وقت کا واحد امید افزا حل تصور کیا گیا، مگر پچاس سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد آج دنیا کو ذرا دیر ٹھہر کر یہ سوال پوچھنے اور اس پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا اقوام متحدہ اپنے وجود کے مقاصد میں کامیاب ثابت ہوا ہے؟ اس سارے سفر میں یقینا اقوام متحدہ نے اپنے مقصد کی سمت کچھ اچھے کردار بھی ادا کیے ہیں جو بجا طور پر اس کا کریڈٹ ہیں۔ امن فوجی آپریشنز، انسانی ہمدردی اور مختلف خطوں میں تنازعات کے پرامن حل میں اس کا حصہ نمایاں رہا ہے۔ مشرقی تیمور سے لے کر جنوبی سوڈان تک اقوام متحدہ کے ذریعے تنازعات کے حل کی مثالیں موجود ہیں جنہیں عالمی برادری ایک مثبت کریڈٹ کے طور پر دیکھتی ہے، مگر کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اقوام متحدہ کا یہ کردار غیر مسلم اقوام کو ہی تنازعات سے نکالنے تک محدود رہا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اقوام متحدہ نے کچھ کام کیے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ کن تنازعات میں یہ فورم سنجیدہ اور مؤثر ثابت ہوا اور کن میں خاموش رہا۔

فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسائل اقوام متحدہ کی ناکامی کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے ضامن ادارے واضح تقاضوں اور قراردادوں کے باوجود عملی اقدام میں ناکام رہ جائیں، تو ادارے کے وجود کا وہی مقصد مشکوک ہوجاتا ہے جس کے تحت اسے قائم کیا گیا تھا۔ مسئلہ صرف قراردادوں کی منظوری نہیں، نہ ہی محض قراردادیں پاس کرنے اور مطالبے دہرانے سے عملاً حقائق میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔ اصل امتحان وہ عملی عزم ہے جو طاقتور ریاستوں کی جانب سے دباؤ یا بلیک میلنگ کے سامنے ڈٹ کر دکھایا جائے۔ بدقسمتی سے ہو یہ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کسی بھی اقدام سے پہلے طاقتور ملکوں کے اشارہ ابرو دیکھتا ہے اور یہ طاقتور ممالک اقوام متحدہ کو کردار کی اجازت وہیں دیتے ہیں جہاں ان کا مفاد محفوظ ہو یا کوئی مفاد نہ ہو اور اس کے برعکس جہاں ان کے مفادات اور بالادستی پر زد پڑتی ہو یہ وہاں اقوام متحدہ کے ہاتھ پیر باندھ دیتے ہیں تاکہ وہ محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہے۔ فلسطین اور کشمیر میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ دونوں مسائل اقوام کے ایجنڈے پر سب سے پرانے لاینحل اور لائق توجہ مسائل ہیں، مگر اقوام متحدہ ان کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات سے قاصر ہے اور محض خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ جن اقوام یا خطوں کے مسائل حل ہوئے، اکثر وہ تھے جو مسلمان نہ تھے، جبکہ دوسری طرف فلسطین، کشمیر، اراکان سمیت دیگر تمام وہ مسائل دہاہیاں گزرنے کے باوجود حل کیلئے سنجیدہ اقدام کے منتظر ہیں، جو براہ راست مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس امر نے مسلم دنیا میں بطور خاص عدم اطمینان اور بے اعتمادی پیدا کی ہے اور اس تاثر کو فروغ دیا ہے کہ عالمی فورمز، بشمول اقوام متحدہ مسلمانوں کے مسائل کے ضمن میں تعصب کا شکار ہیں۔

اقوام متحدہ کو اپنا اصل کردار ادا کرنا ہے تو دو واضح اقدامات لازماً کرنے ہوں گے۔ اول اسے طاقتور ریاستوں کے سیاسی دباؤ سے خود کو آزاد کروانا ہوگا۔ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے اصول جب سب کیلئے یکساں طور پر نافذ ہوں گے تو اس کی ساکھ قائم ہوگی اور یہی ساکھ اس کی طاقت بنے گی۔ دوم اقوام متحدہ کو فوری اور فعال ثالثی عمل متعارف کروانا ہوگا جس میں موثر قوت نافذہ ہو۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کو اپنے کردار کو خودکار بنانے پر بھی توجہ دینا ہوگی، خود کار کا مطلب یہ ہے کہ اقوام متحدہ اپنے فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کیلئے کسی طاقت کی اجازت اور خمِ ابرو کا محتاج نہ ہو۔ اس کے بغیر دنیا سے نوآبادیاتی سوچ اور استعماری رویوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہے اور جب تک اس سوچ اور رویے کا خاتمہ نہ ہو، دنیا میں امن بھی محض خواب رہے گا اور اقوام متحدہ کا وجود بھی بے کار سمجھا جاتا رہے گا۔

فلسطین اور کشمیر جیسے معاملات میں اقوام متحدہ کی خاموشی یا غیر مؤثر ردِ عمل کا نتیجہ صرف انسانی جانوں کے نقصان کی صورت ہی برآمد نہیں ہورہا بلکہ اس سے عالمی نظامِ پر انسانیت کا اعتماد بھی متزلزل ہو رہا ہے۔یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ دنیا میں اقوام متحدہ کے قیام کے بعد بھی جنگیں بند نہیں ہوئیں، جنگیں جاری ہیں اور انسانیت کا خون بہہ رہا ہے اور جب تک دنیا میں قتل و خون کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، انسانیت کے سر پر تیسری جنگ عالمگیر کا خطرہ منڈلاتا رہے گا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا انسانیت ایک اور عالمگیر جنگ کی متحمل ہے؟ بالخصوص جب جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے خون ریزی کو سائنس بنانے کے اس دور میں اور اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ آج دنیا میں سات ممالک ایسے ہیں جو کھلم کھلا ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اس منظر نامے میں یہ تصور ہی نہایت پُرہول ہے کہ وسیع پیمانے پر جنگ چھڑ جانے کی صورت میں دنیا کا انجام کیا ہوگا؟ یہ حقیقت ہے کہ فلسطین اور کشمیر جیسے المناک مسائل اقوام متحدہ کے ادارے کیلئے امتحان ہیں، یہ ایسے ہی سلگتے رہنے کی صورت میں اقوام متحدہ کے وجود ہی نہیں روئے زمین پر انسان کی بقا کیلئے بھی سنگین خطرہ بنے رہیں گے۔ اس امتحان میں ناکامی کا خمیازہ پوری انسانیت کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔