غزہ میں جنگ بندی کی امید!

فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس نے طویل مشاورت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے سے متعلق اپنا معتدل اور متوازن موقف جاری کردیا ہے جس کے بعد غزہ میں جنگ بندی کی امید قائم ہوگئی ہے۔جاری بیان میں حماس کا کہنا ہے کہ وہ ‘تمام زندہ اسرائیلی مغویوں کو رہا کرنا اور مر جانے والے مغویوں کی باقیات دینے کے لیے تیار ہے۔’ حماس نے اپنے بیان میں کہا ہے معاہدے میں تبادلہ زمینی حالات اور شرائط کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔حماس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘فلسطینیوں کی قومی اتفاق رائے اور عرب اور اسلامی حمایت’ کی بنیاد پر ‘غزہ کی کا انتظام آزاد فلسطینی باڈی کے حوالے کرنا اْن کے اپنے معاہدے کی تجدید ہے۔’فلسطینیوں کی خود ارادیت اور ریاست کے لیے حالات سازگار ہو سکیں گے جسے ہم فلسطینی عوام کی خواہش کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے حقوق کے بارے میں حماس کا کہنا ہے کہ یہ جامع قومی پوزیشن سے پر مبنی ہے جس کی بنیاد متعلقہ بین الاقوامی قوانین اور قراردادیں ہیں اور اس پر ایک قومی فریم ورک کے اندر بات چیت کی جا رہی ہے۔

حماس کی جانب سے ردعمل سامنے آنے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا سائٹ ٹروتھ سوشل پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘حماس کے جاری کردہ بیان کی روشنی میں مجھے یقین ہے کہ وہ دیرپا امن کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کو فوری طور بمباری بند کرنا ہو گی تاکہ ہم مغویوں کو بحفاظت رہا کروا سکیں۔’امریکی صدر ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ‘فی الوقت یہ کرنا بہت خطرناک ہے۔ ہم پہلے سے ہی تفصیلات پر کام کر رہے ہیں۔ یہ صرف غزہ کے لیے نہیں بلکہ یہ مشرق وسطی میں امن کے قیام کے لیے ہے۔حماس کی جانب سے غزہ میں قیامِ امن کے لیے صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے اعلان کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے دفتر کی جانب سے مختصر دو سطری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل امن کے لیے ‘ٹرمپ کے منصوبے’ پر امریکاکے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

دریں اثناء اطلاعات کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو جنگ بند کرنے کا پیغام دینے کے باوجود جمعے کی رات اور ہفتے کے دن غزہ میں خوفناک بمباری جاری رکھی جو اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیل موجودہ حالات میں معاہدے کے تحت جنگ بندی کو اپنی شکست سمجھتا ہے اور وہ اس شکست پر اپنی خفت مٹانے کے لیے آخری لمحات سے درندگی جاری رکھنا چاہتا ہے۔مگر عالمی مبصرین کا خیال ہے کہ اب شاید امریکا کے لیے بھی نیتن یاہو کی بھڑکوں اور بزور طاقت غزہ کو فتح کرنے کے دعووں پر اعتماد نہیں رہا اور چونکہ امریکا خود داخلی سیاسی بحران کی وجہ سے مالیاتی شٹ ڈاؤن پر جانے پر مجبور ہوا ہے اس لیے اس کے لیے اسرائیل کے بھاری جنگی اخراجات برداشت کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا کے بڑ بولے اور شیخی خور صدر ٹرمپ کو بھی غزہ میں جنگ ختم کرانے کی جلدی ہے اور انہوں نے اسرائیل کے جنگی جنونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو بھی جنگ بندی پر آمادہ کر لیا ہے۔

اگر چہ نیتن یاہو اس وقت بھی کوشش کر رہا ہے کہ جنگ بندی کی شرائط کو اپنے حق میں کرواکر اپنی جیت کا تاثر پیدا کرے جو اس کی سیاسی زندگی کی بقا کی ناگزیر ضرورت ہے مگر حالات کا نقشہ بتارہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی فلسطین کے غیور مسلمانوں کی مقاومتی جدوجہد کی کامیابی کے واضح تاثر کے ساتھ عمل میں آنے والی ہے۔فلسطینی مقاومتی تنظیم کا شروع دن سے اسرائیل کو یہ پیغام تھا کہ وہ مذاکرات اور معاہدے کے بغیر اپنے قیدی نہیں چھڑاسکتا جبکہ نیتن یاہو کو یہ زعم تھا کہ وہ بزور طاقت اپنے قیدیوں کو بازیاب کروالے گا۔ آج اگر معاہدے کے تحت اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہوجاتی ہے جن کے بدلے میں سینکڑوں بے گناہ فلسطینی نوجوانوں کو بھی اسرائیلی عقوبت خانوں سے چھٹکارا ملنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو دو سال تک فلسطینیوں کا قتل عام کرنے،ہزاروں بم غزہ پر گرانے ، اربوں ڈالرز جنگ میں پھونک دینے اور اپنے ہزاروں فوجیوں کو مروانے اور دسیوں ہزار فوجیوں کو زخمی اور ذہنی مریض بنادینے کے بعد بھی پوری دنیا میں رسوائی،ذلت اور نفرت کا استعارہ بن جانے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا جبکہ فلسطینی عوام اور ان کی مقاومتی تنظیموں نے اگر اسرائیل کے خوفناک مطالم سہے اور بے پناہ قربانیاں دیں تو اس کے عوض میں آج وہ دنیا کو اپنے اس کاز کی متوجہ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں جس کے لیے وہ پون صدی سے اسی طرح کی قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور ان کی آزاد اور خود مختار ریاست کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں اور اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ روکنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود صاف نظر آتا ہے کہ دنیا اب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے واشنگٹن میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں اسرائیل کی خواہشات کے مطابق جو یکطرفہ پلان پیش کیا تھا،اسے عالمی سطح پر پذیرائی نہیں ملی ہے،پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک نے بھی واضح کردیا ہے کہ ان کی جانب سے مشرق وسطی میں امن کے سلسلے میں امریکی صدر کو جو تجاویز دی گئی تھیں ،ان کو ٹرمپ کے امن منصوبے میں ایڈریس نہیں کیا گیا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے ٹرمپ امن منصوبے کی شکل میں حماس کو تنہا کرنے کا جو دعوی کیا گیا تھا، حماس نے منصوبے پر ایجابی موقف اختیار کرکے اسے ناکام بنادیا ہے۔حماس نے غزہ جنگ بندی کے لیے نہایت مناسب تجاویز رکھی ہیں جن کی روشنی میں جنگ کا خاتمہ ہونے کی امید روشن ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر عالمی رہنماؤں نے حماس کے موقف کو سراہا ہے۔ واضح رہے کہ حماس معاہدے کے تحت جنگ بندی کی صورت میں غزہ کا کنٹرول چھوڑنے اور مقامی ٹیکنوکریٹس کی حکومت بننے کی صورت میں اپنے ہتھیار نئی انتظامیہ کے حوالے کی پیشکش کئی بار کرچکا ہے۔

حماس نے دوسال تک بڑی بہادری اور بے مثال استقامت کے ساتھ صہیونی درندگی کی مزاحمت کی اور بے شمار قربانیاں دینے کے باوجود وہ آخر میں ناقابل تسخیر رہی، اب اس کے پاس اپنی بقیہ قیادت اور افرادی قوت کو بچاکر سیاسی عمل کے ذریعے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانے کا راستہ موجود ہے۔ لہٰذا غزہ کا انتظامی کنٹرول چھوڑنے اور اسلحہ نئی مقامی انتظامیہ کے سپرد کرنے کے اس کے فیصلے کو ہتھیار ڈالنے سے تعبیر نہیں جاسکتا۔ غزہ میں جنگ بندی فلسطینی مزاحمت کی کامیابی اور ناجائز صہیونی ریاست کی شکست ہی سمجھی جائے گی۔