آزاد کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات اور بے چینی نے ملک کے داخلی استحکام کے حوالے سے کئی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ان واقعات کے نتیجے میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور مواصلاتی نظام شدید طور پر معطل رہا۔ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر حکومتی وفد نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ دوسری جانب، وفاقی وزراء نے اس بحران میں بیرونی عوامل کی مداخلت کے امکان کو مسترد نہ کرنے کے اشارے بھی دیے ہیں۔ ایکشن کمیٹی کے مطالبات میں بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ، گندم پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، اور اشرافیہ کی بے جا مراعات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 38نکاتی چارٹر میں جو مطالبات پیش کیے، ان میں سے اکثریت کا تعلق بنیادی ضروریات کی فراہمی اور طبقاتی امتیاز کے خاتمے جیسے اہم اور جائز مسائل سے تھا۔
تاہم آزاد کشمیر ہی سے تعلق رکھنے والے متعدد سیاست دانوں کا خیال ہے کہ تمام مطالبات زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مثال کے طورپر آزاد کشمیر میں بجلی ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں تقریباً مفت ہے، اس کے باوجود بجلی کی قیمتوں میں کمی پر اصرار کیا جا رہا ہے جو کہ غیر منطقی تقاضا ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ بحران کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ سمجھنا نہایت اہم ہے کہ جائز معاشی مطالبات کے ساتھ ہی کچھ ایسے سنگین تضادات اور واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں جن کو نظرانداز کرنا ریاستی سلامتی کے لیے خطرناک ہوگا۔ یہ دعویٰ مشکوک ہے کہ احتجاج ایک غیر سیاسی عوامی تحریک ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں عوامی تشدد کے رونما ہونے والے واقعات کی روشنی میں کسی بھی بڑے عوامی احتجاج کو ملک کے وسیع تر سیاسی ماحول سے منقطع سمجھنا اور اس میں سماجی روابط کے جدید ذرائع کی غیر معمولی کارفرمائی کو تسلیم نہ کرنا سادہ لوحی ہوگی۔ افواجِ پاکستان کے خلاف لگائے جانے والے نعروں کو ملک میں موجود سیاسی بیانیے کے اثرات سے لاتعلق نہیں سمجھا جا سکتا۔ قبائلی علاقوں میں خوارج کو سیاسی پشت پناہی فراہم کرنے والے عناصر آزاد کشمیر میں بھی کارفرما ہو سکتے ہیں۔ مقامی مسائل کے حل کے لیے عوامی احتجاج کا رنگ مختلف ہونا چاہیے۔ تشدد، پولیس پر منظم حملوں، اور مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی مخالفت میں لگائے جانے والے نعروں کو آخر کیا عنوان دیا جائے؟ اگر یہ احتجاج صرف مقامی حکومت کے خلاف معاشی مطالبات کے لیے تھا، تو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تصادم کا ماحول کیوں پیدا کیا گیا؟ یہ تصادم کسی غلط فہمی یا لسانی تعصب سے زیادہ بیرونی مداخلت کا تاثر دیتا ہے، جس کی جانب حکومتی وزراء نے بھی اشارہ کیا ہے۔
مہاجرین مقیم پاکستان کی بارہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے سامنے آنے والے مطالبات پر بھی ایک متوازن نقطۂ نظر اختیار کرنا ہوگا۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ نشستیں ماضی میں بدعنوانی اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں اور ان پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ دراصل ان نشستوں کا مقصد مہاجرین کی آئینی اور علامتی نمائندگی تھا۔ ان کے خاتمے کو آئین اور کشمیر کاز کے وسیع تناظر میں دیکھنا زیادہ مناسب ہے۔ ملک کے داخلی حالات اور علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ایکشن کمیٹی کے مطالبات کے پس پردہ ایک چھپا ہوا سیاسی ایجنڈا بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔ دوہرے مقاصد پر مشتمل عوامی احتجاج ملک کے دیگر حصوں میں بھی اشتعال پیدا کر سکتا ہے جس کا تدارک بہرحال ضروری ہے۔ بھارتی ایجنڈے پر کام کرنے والی قوتیں ہمیشہ اس تاک میں رہتی ہیں کہ وہ پاکستان کے داخلی مسائل کو اجاگر اور مقامی عناصر کو استعمال کر کے ملک کے عالمی امیج اور علاقائی استحکام کو شدید نقصان پہنچا سکیں۔ بھارتی میڈیا نے آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والے حالات کو جس طرح سے نمایاں کیا ہے، وہ ایک سازشی ایجنڈے کو مزید واضح کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ صرف مقامی بے چینی کا نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ریاست کو ایک بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والے ایک بڑے سیٹ اپ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اندازہ یہ ہے کہ ہائیبرڈ جنگ کے ذریعے پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کی نئی چالیں چلی جا رہی ہیں۔ اس کے بالمقابل حکومت کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کا فوری قیام اور وزیر اعظم کا مذاکرات کی ہدایت دینا، اس بات کی دلیل ہے کہ ریاست اس پیچیدہ مسئلے کو سیاسی اور پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ مذاکرات ایک مثبت پیش رفت ہے تاہم اسی دوران اسلام آباد میں مظاہرین کی گرفتاری کے دوران نیشنل پریس کلب میں پولیس کا داخلہ اور صحافیوں پر تشدد کا واقعہ ایک سنگین معاملہ ہے اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہوگی کہ تشدد کا آغا ز کس کی جانب سے ہوا۔ طاقت کا غیر متناسب استعمال درحقیقت اندرونی مسائل کو بڑھا دیتا ہے جس سے بیرونی مداخلت کو راہ ملتی ہے۔ عدل کا اہم تقاضا ہے کہ کسی بھی فریق کے جائز مطالبات پر فوری اور سنجیدہ توجہ دی جائے۔ تشدد کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پاکستان کی نئی عالمی اہمیت کا ایک منفی ردعمل ہے۔ موجودہ حالات میں یہ عین منطقی ہے۔ کیوں کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان سفارتی روابط میں پیدا ہونے والی گرم جوشی دراصل امریکا کی وسیع تر جغرافیائی سیاست اور جنگی حکمتِ عملی میں پاکستان کی بدلتی ہوئی اہمیت کے اشارے ہیں جسے بھارت قبول نہیں کر سکتا۔ عالمی طاقتوں کے درمیان برپا مفادات کی جنگ میں پاکستان کا مؤثر کردار ملک دشمن طاقتوں کے لیے ایک بھیانک خواب ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان ایک متوازن صورت حال پیدا کرنے کی کوشش میں ہے لہٰذا دشمن قوتیں اس پر اندرونی طورپر وار کر سکتی ہیں۔ ایسے میں ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کا تقاضا یہ ہے کہ ہم داخلی اور بیرونی چیلنجوں کا بیک وقت سامنا کر سکیں۔ اس کے لیے درست حکمتِ عملی اور سیاسی بصیرت ضروری ہے۔ لہٰذا آزاد کشمیر کے بحران کو حل کرنے کے لیے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو حقیقی عوامی مسائل کے مطابق ایک فوری اور جامع پیکیج پیش کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو یہ احساس ہو کہ ریاست ان کے بنیادی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے تیار ہے تاہم غیر ضروری مطالبات بالخصوص جن پر بیرونی عوامل کا اثر واضح ہو انھیں سختی کے ساتھ مسترد کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کو اپنی داخلی صفوں میں مکمل شفافیت اور عدل کی حکمرانی قائم کرنی ہوگی۔ داخلی خلفشار کو بیرونی مفادات کے لیے استعمال ہونے بہر صورت روکنا ہوگا۔ کسی بھی مضبوط ریاست کی حقیقی فتح طاقت کے استعمال میں نہیں بلکہ عوام کے تحفظ، امن اور سلامتی کا ماحول پیدا کرنے میں ہوتی ہے۔