بے مثال مزاحمت واستقامت کے دوسال

فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کی عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی جانب سے قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے بدترین مظالم کے خلاف شروع کیے گئے طوفان الاقصیٰ آپریشن کو دوسال کا عرصہ مکمل ہوگیا ہے اور گوکہ فلسطینی عوام کو اس دوران بے پناہ مصائب و آلام اور بے شمار جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے انتقام کی اندھی جنگ میں تاریخ کے جدید ترین حربی وسائل اور انتہائی ترقی یافتہ عسکری ٹیکنالوجی کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کے جذبہ ٔحریت کی بدترین سزا دینے میں کوئی کس نہیں چھوڑی اور سفاکیت و بہیمیت میں چنگیز خان و ہلاکو خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تاہم اس کے باوجود دنیا اس کھلی حقیقت کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ فلسطینیوں کا عزم اور حوصلہ آج بھی تازہ ہے ،ان کی جدوجہد آزادی کی عالمی حمایت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے ، ان کی صفوں میں اتحاد ویکجہتی پہلے دن کی طرح قائم ہے اور وہ اس وقت بھی مقبوضہ فلسطین کے مختلف حصوں اور غزہ شہر کی گلیوں میں قابض فوج کو ناکوں چنے چبوارہے ہیں۔

جب کہ دوسری طرف صہیونی ریاست اسرائیل کی اصلیت و حقیقت پوری دنیا پر واشگاف ہوگئی ہے، خود کو” مظلوم” اور” مسکین ”قرار دے کر دنیا کی ہمدردیاں بٹورنے والے صہیونیوں کا حقیقی چہرہ عالم انسانیت کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے، صہیونی ریاست کے ناقابل تسخیر ہونے کا زعم چکناچور ہے، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مکمل حمایت اور فری ہینڈ ملنے کے باوجود صہیونی فوج کی غزہ کو شکست دینے اور اپنے قیدی چھڑانے میں ناکامی نے اسرائیل کے حامیوں کو بھی شرمسار کردیا ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین لاقوامی فوجداری عدالت سے انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کے مجرم قرار پانے کے بعد صہیونی بھیڑیا نیتن یاہو دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی تاریخی ”عزت افزائی” اس کا حال بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ صہیونی کارندے اور اسرائیل کے حامی دنیا بھر میں نفرت کی علامت بن چکے ہیں۔کھیل کے میدانوں سے لے کر ثقافتی پروگراموں تک ہر جگہ صہیونیوں پر نفرین بھیجنے کو انسانیت کاتقاضا سمجھاجانے لگا ہے۔ خود اسرائیل سے تعلق رکھنے والے مبصرین اور سابق فوجی جرنیلوں کے مطابق اسرائیل عسکری محاذ پر اپنی برتری قائم رکھنے کے باوجود بڑی تصویر میں جنگ ہارتا دکھائی دے رہا ہے اور اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ہمدردی اور حمایت کی اس لہر کو کھوچکا ہے جو صہیونی تحریک نے کئی عشروں کی محنت اور اربوں ڈالرز کے وسائل جھونک کر مصنوعی طریقے سے حاصل کی ہوئی تھی جس میں قابض صہیونی فوج کے بے گناہ فلسطینی مسلمانوں پر ہر ظلم کو” حق دفاع” سمجھ کر جائز قرار دیا جاتا تھا۔

آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ اسرائیل کے سر پرست اعلیٰ امریکا نے بھی ایک طرح سے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں اور ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا کے صہیونیت نواز وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اسرائیل کا عالمی امیج بری طرح متاثر ہوگیا ہے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اب اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ غزہ کو بزور شمشیر مسخر کرنے کی نیتن یاہو کی بھڑک بس بھڑک ہی ہے اور اسرائیلی فوج میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ زمینی معرکے میں آگے بڑھ کر فلسطینی مقاومت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرسکے۔ امریکا جو اس وقت شدید داخلی سیاسی بحران کا شکار ہے اور کانگریس کے شٹ ڈاون کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ کو معمول کے اخراجات چلانے میں مشکل درپیش ہے،اسرائیل کو مزید فنڈ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اوپر سے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کراکے سیاحتی مرکز بناکر ڈالرز بٹورنے کا صدر ٹرمپ کا خواب بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، اس لیے امریکا اب بظاہر اس کمبل سے جان چھڑانے کی کوشش میں دکھائی دیتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد جنگ بندی کراکے امن کا نوبیل انعام جیتنے کی بھی خواہش رکھتے ہیں جو غزہ کی جنگ سے حاصل ہونے والا شاید واحد فائدہ ہوگا جو وہ حاصل کرسکیں گے۔ اس لیے عالمی مبصرین کے مطابق اب نیتن یاہو کے پاس آپشن کم رہ گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ مذاکرات پر مجبور ہوا ہے۔

اسرائیل کی اس ساری روسیاہی اور رسوائی میں بنیادی کردار فلسطینی عوام کے بے مثال صبرو استقامت کا ہے۔ ان دو برسوں کے دوران جتنا ظلم فلسطینی عوام پر ہوا ہے، دنیا کی کسی اور قوم پر ہوتا تو شاید وہ کب کا سرنڈر کرچکی ہوتی۔ طوفان اقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد اسرائیل نے جس بہیمانہ انداز میں فلسطینی عوام کا بے دریغ قتل عام شروع کیا، اس کو دیکھتے ہوئے بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ غزہ شاید زیادہ دیر تک مزاحمت نہیں کرسکے گا اور ایک دوہفتوں کے اندر اسرائیل غزہ کو ملیامیٹ کرکے اس پر قابض ہوجائے گا ۔ اسرائیل کے عزائم بھی کچھ ایسے ہی تھے اور بچوں کے قاتل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور اس کے صہیونی دہشت گرد وزراء نے بار ہا اس کا اظہار بھی کیا کہ وہ غزہ کا صفایا کردیں گے مگر آج دو سال مکمل ہونے کے بعد بھی وہ ہنوز” غزہ” دوراست کا مصداق بنے ہوئے ہیں۔

فلسطینی مقاومت کے شیر دل ترجمان ابو عبیدہ نے نیتن یاہو ،سموتریش اور بن گویر کو کئی بار یہ پیغام دیا تھا کہ وہ کچھ بھی کرلیں اپنے قیدی بزور طاقت نہیں چھڑاسکتے۔ اس کے لیے انہیں مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہوگا۔ آج یہ بات تو قطعی طور پر معلوم نہیں ہے کہ ابوعبیدہ زندہ اور مزاحمت کے میدانوں میں سر گرم عمل ہیں یا شہادت کا جام پی کر حیات ابدی کا انعام پاچکے ہیں تاہم ان کایہ قول آج بھی زندہ اور سچا ہے کہ اسرائیل اپنے قیدی بزور طاقت نہیں چھڑاسکتا۔ چنانچہ آج اسرائیل اور اس کا سرپرست اعلیٰ امریکا کئی ماہ تک دھمکیاں دینے اور آخر میں غزہ میں آدھمکنے کے بعد اب قیدیوں کی رہائی کے لیے” شرماتے شرماتے” شرم الشیخ پہنچ چکے ہیں۔ فلسطینی قوم نے اپنی بے مثال جرأت و بسالت کے ذریعے طاقت کے نشے میں چور بڑ بولے دشمن کو بالآخر مذاکرات پر آنے پر مجبور کرکے دنیا بھر کے مظلوم اور محکوم طبقات کو آزادی کی جدوجہد کا طریقہ اورراستہ دکھادیا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ فلسطین کی جدوجہد آزادی 7اکتوبر کو شروع ہوئی تھی، نہ شرم الشیخ میں طے پانے والے کسی معاہدے پر ختم ہوگی۔یہ آزادی اور حق خودارادیت کی جنگ ہے جو ایک مکمل آزاد اور فلسطینی ریاست کے قیام اور بیت المقدس کی صہیونیت کے پنجے سے مکمل آزادی تک جاری رہے گی۔