ناکام احتجاج سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بانی چیئرمین عمران خان کی 2 سالہ قید کیخلاف کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ پی ٹی آئی نے سندھ کے 50 سے زائد شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالنے کا دعویٰ کیا، تاہم پی ٹی آئی قیادت ایک ایسا دباؤ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی، جس سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا باب کھلنے کا ماحول بن سکے، جبکہ اس احتجاج کیلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوری قوت جھونک دی گئی تھی۔

وطن عزیز پاکستان مشکل موڑ پر کھڑا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، اندرونی خلفشار، امن و امان کے مسائل اور بد انتظامی نے ملک کو ایک پیچیدہ صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے۔ ایسے وقت میں ملک کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے سیاسی استحکام، کیونکہ اسی پر معیشت، ترقی، امن، انصاف اور ریاستی نظم کا استحکام منحصر ہے۔ سیاسی استحکام سے نہ صرف ملکی ادارے منظم رہتے ہیںبلکہ سرمایہ کاروں، بین الاقوامی اداروں اور خود عوام کو بھی اعتماد ملتا ہے کہ ریاست اپنے داخلی نظام کو سنبھال سکتی ہے۔ پی ٹی آئی گزشتہ دو سال سے اپنے بانی چیئرمین عمران خان کی قید کیخلاف احتجاج پر ہے، گزشتہ روز بھی پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر مظاہروں اور ریلیوں کا اعلان کیا گیا۔ اس سلسلے میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت پورے ملک میں مظاہرے کیے گئے۔ اس احتجاج کیلئے سوشل میڈیا پر ایک ماہ سے زائد عرصے سے بھرپور مہم چلائی گئی تھی، اس کا مقصد عوام کو بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکال کر حکومت پر دباؤ ڈالنا اور عدالتوں و ریاستی اداروں کو بانی چیئرمین کی رہائی کیلئے مجبور کرنا تھا، پی ٹی آئی کی قیادت اور سرگرم رہنما اب نہیں تو کبھی نہیں جیسے نعروں کے ساتھ ایسا ماحول بنائے ہوئے تھے، جس سے لگ رہا تھا کہ اس بار شاید نو مئی اور چھبیس نومبر جیسا بڑا احتجاج دیکھنے کو ملے گا، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے بھی اس بات کو پیش نظر رکھ کر اس سے نمٹنے کیلئے بڑے پیمانے پر تیاریاں کر رکھی تھیں، لیکن پانچ اگست کو ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان ملک بھر میں باہر نکلے، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے عوام کو بڑے پیمانے پر موبلائز کرکے حکومت پر بڑا پریشر اور دباؤ بنانے میں بہرحال ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ صورتحال صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی رہی، جو پی ٹی آئی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی ایسا دباؤ نہیں بن سکا، جس سے ملکی فضا میں کوئی تبدیلی آتی یا عمران خان کی رہائی کی کوئی سبیل نکلتی۔

حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو پانچ اگست کا احتجاج پی ٹی آئی کے دعوؤں کے برعکس ثابت ہوا اور اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ حکومت اور ریاست کا کریک ڈاؤن اور انتظامی سختیاں اس سے پہلے ہونے والے احتجاجوں کے مواقع پر بھی رہی ہیں، اگر موازنہ کیا جائے تو اس بار حکومت کی تیاریاں کم، مگر عوام میں پی ٹی آئی کے بیانئے کو سپورٹ کرنے کے حوالے سے جوش و خروش نہایت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہی رہا۔ یہ صورتحال اس حقیقت کا غماز ہے کہ عوام اب احتجاج کی سیاست سے تھک چکے ہیں۔ وہ اپنے روزمرہ کے معاشی، معاشرتی اور سیکورٹی مسائل سے نجات چاہتے ہیں، نہ کہ مزید انتشار اور خلفشار۔ پانچ اگست کے احتجاج بلکہ تحریک میں عوام کی عدم شرکت اس بات کا واضح پیغام ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے طرز سیاست پر سنجیدگی سے نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ سیاسی استحکام کے بغیر کوئی بھی ملک معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔ سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ نہیں لگاتے جہاں آئینی ادارے دباؤ میں ہوں، عوام سڑکوں پر ہوں اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کی بجائے محاذ آرائی ہو اور یہ پی ٹی آئی کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ مسلسل احتجاجی سیاست جاری رکھ کر وہ ملک کا نقصان ہی کر رہی ہے جبکہ ملکی سیاست کا حصہ ہونے کے ناتے اس کی ذمے داریوں کا سنجیدہ تقاضا کچھ اور ہے، جن سے بدقسمتی سے وہ عملاً لا تعلق کسی اور ہی سمت کھڑی دکھائی دیتی ہے۔

خوش آئند امر یہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں ملکی معیشت میں کچھ بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ روپے کی قدر میں استحکام، اسٹاک مارکیٹ کی بحالی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے کامیاب مذاکرات اور معاہدے بہرحال اعداد و شمار کی میزان پر مثبت معاشی اشاریوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر موجودہ پالیسیوں میں تسلسل اور بہتری جاری رہی تو ملک مزید آگے بڑھ سکتا ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہوگا جب سیاست میں انتشار کی جگہ تدبر اور بلوغت لے گی۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی اس کے برعکس ہے۔ پارٹی مسلسل محاذ آرائی، احتجاج، دھرنوں اور دباؤ کی سیاست پر کاربند ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ ملک کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ پی ٹی آئی کی اپنی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کو پانچ اگست کے ناکام احتجاج سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی کرنا ہوگی، ورنہ وقت اس کی ناکامی کا نقش گہرا کرتے کرتے اسے مکمل لاتعلق کرکے گزر جائے گا، کیونکہ کوئی بھی باشعور قوم مسلسل انکار، یلغار، للکار اور نفرت کے بیوپار کو برداشت نہیں کرسکتی۔

اس بیوروکریسی کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا!

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک کی آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں پراپرٹی خرید چکی ہے اور اب پرتگال کی شہریت لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ ایک نہایت شرمناک بات ہے، تاہم چونکہ یہ بات حکومت کے ایک انتہائی ذمے دار فرد اور اہم رکن کی جانب سے سامنے آئی ہے، اس لیے اسے محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ یا الزام تراشی کے پردے میں چھپا کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ امر اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا کہ پاکستان کے عوام بیوروکریسی سے سخت نالاں ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بیوروکریسی قوم پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے۔ عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک کو موجودہ حالات تک پہنچانے میں اس کرپٹ بیوروکریسی کا کردار ہے۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اس بیوروکریسی کی موجودی میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ اگر پاکستان کو واقعی ایک مستحکم، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانا ہے تو سب سے پہلے بیوروکریسی کا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ اس مقصد کیلئے محض بیانات کافی نہیں، حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو وسیع تر انتظامی اصلاحات کیلئے متحد ہونا ہوگا۔ ایک ایسی بیوروکریسی کی تشکیل ناگزیر ہے جو عوام دوست، ریاست سے مخلص اور مکمل طور پر شفاف نظامِ احتساب کی پابند ہو۔