پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے17ویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکاء سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا فخر ہے اور یہاں کے عوام محب وطن، باصلاحیت اور پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام ملک کا حقیقی سرمایہ ہیں، صوبے کے عوام بے پناہ اقتصادی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل نے وفاقی، صوبائی حکومتوں کے ترقیاتی اقدامات پر روشنی ڈالی، انہوںنے کہاکہ بلوچستان کے عوام صوبے کے بے پناہ اقتصادی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، نوجوان ترقی اور دیرپا استحکام کیلئے اپناکردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا پیچھا کر کے صوبے کو اس ناسور سے نجات دلائی جائے گی۔
بلوچستان بلا شبہ پاکستان کا ایک ایسا صوبہ ہے جو اپنی جغرافیائی وسعت، معدنی دولت اور علاقائی اہمیت کی وجہ سے قومی اثاثہ شمار ہوتا ہے۔ یہاں کے پہاڑ، معدنی ذخائر، ساحلی پٹی اور توانائی کے وسائل پورے ملک کی معیشت کیلئے بے حد قیمتی ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ اس دولت و ثروت کے باوجود بلوچستان کے عوام غربت، پسماندگی، بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہی تضاد بلوچستان کے مسائل کی جڑ اور اسی سبب صوبہ تنازعات اور بے امنی کا شکار ہے۔ بلاشبہ بلوچستان کے عوام محنت کش ہیں، نوجوان گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں، اگر انہیں سازگار مواقع مل جائیں تو وہ بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں مگر سوال یہی ہے کہ یہ مواقع انہیں کون دے گا؟ یہ فطری امر ہے کہ جب ایک سرزمین کے وسائل سے پورا ملک فائدہ اٹھا رہا ہو اور مقامی آبادی بنیادی سہولتوں سے ہی محروم رہے، تو اس سے احساس محرومی اور ناراضی جنم لیتے ہیں، آج بلوچستان اسی کا عکس پیش کر رہا ہے۔ ریاستی اداروں کی ذمہ داری واضح ہے۔ فوج وسیکورٹی فورسز کا کام ملک کی حدود اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنا یہ فرض بہادری اور خلوصِ نیت کے ساتھ نبھا رہی ہیں، مگر صرف فورسز کی کارکردگی سے مسائل حل نہیں ہوں گے، مسائل کے حل کیلئے جامع اقدامات ناگزیر ہیں۔
یہ واضح ہے کہ فوجی کارروائیوں سے عارضی طور پر امن قائم ہو سکتا ہے، مگر دیرپا استحکام اسی صورت ممکن ہے جب سیاسی، سماجی، انتظامی اور اقتصادی بنیادوں پر اصلاحات کی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی کوششوں کے ساتھ سول حکومتوں کو اپنے فرائض پوری ایمانداری، شفافیت اور بروقت کارکردگی کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی محرومیوں اور مسائل میں بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی بڑا عنصر ہے۔ تعلیم، صحت، بجلی، گیس اور سڑکوں جیسی بنیادی ضروریات کی عدم موجودی نے صوبے کو ترقی کی دوڑ سے پیچھے رکھا ہوا ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ بلوچستان میں سوئی کے مقام پر 1950میں گیس دریافت ہوئی اور اب پورا ملک ”سوئی گیس” سے فیضیاب ہے، مگر خود بلوچستان اس سے محروم ہے۔ ایسی ناانصافی اور محرومی لوگوں میں ناراضی، احساس محکومی اور اشتعال کو ہوا دیتی ہے اور یہ جذبات آہستہ آہستہ عسکریت پسندی کا سبب بنتے ہیں۔اس کے علاوہ بلوچستان کے مسائل کی پیچیدگی میں بیرونی مداخلت کا پہلو یقینا شامل ہے، جس سے انکار کی گنجائش نہیں، مگر یہ مداخلت مؤثر اس لیے ہو پاتی ہے کیونکہ مقامی حکومتیں اور انتظامیہ بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ بیرونی ہاتھ تبھی اپنا اثر دکھاتا ہے، جب مقامی سطح پر ناانصافی اور بدعنوانی کا چلن ہو، لہٰذا اس مسئلے کا مکمل حل صرف سیکورٹی نقطہ نظر سینہیں نکل سکتا، اس کیلئے تمام حکومتی اداروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور عوامی مسائل کے حل پر توجہ دینا ہوگی۔ مسائل کے حل کی بات کی جائے، تو ایک بنیادی نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو صوبے کے وسائل سے جائز حق اور حصہ نہیں مل رہا، جو بلاشبہ مکمل طور پر سول انتظامیہ اور حکومت کے دائرہ اختیار کا سبجیکٹ ہے۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ بلوچستان کے عوام کو صوبائی وسائل میں شراکت کا احساس دلایا جائے، عملی اقدامات سے انہیں یقین دلایا جائے کہ وہ زمین کے مالک اور پاکستان کے باعزت شہری ہیں۔
آرمی چیف نے اپنے خطاب میں ترقیاتی منصوبوں کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ یقینا بلوچستان کے مسائل کے حل کا ایک اہم نکتہ ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ آمدنی کا مناسب حصہ مقامی ترقیاتی منصوبوں، تعلیم اور صحت کیلئے مخصوص کیا جائے تاکہ عوام براہِ راست فوائد محسوس کریں۔مقامی آبادی خصوصاً نوجوانوں کو ہنر مندی، تکنیکی تعلیم اور ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ علاوہ ازیں مقامی نمائندوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں مؤثر اختیار دیا جائے تاکہ حکومتی پالیسیاں زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہوں۔ وسائل کی تقسیم اور ترقیاتی منصوبوں میں ٹرانسپیرنسی اور احتساب بہت اہم ہے، تاکہ کسی بھی قسم کی بددیانتی یا میرٹ کی پامالی نہ ہو۔ بنیادی ڈھانچے کی فوری بہتری کیلئے منصوبے بہت اہم ہیں، سڑکیں، مراکز صحت، اسکول اور پانی کی فراہمی جیسے مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کیا جائے۔ مزید برآں قانون و انصاف کے نظام کو مستحکم کرنا ہوگا تاکہ ریاستی حقوق سب پر یکساں طور پر نافذ ہوں۔ جب لوگ محسوس کریں کہ انصاف دستیاب اور مسائل حل ہو رہے ہیں تو وہ غیر ریاستی متبادل کے پیچھے نہیں جائیں گے۔
بلوچستان کا مسئلہ اس وقت ہی حل ہوسکتا ہے، جب وہاں کے عوام کو اپنے صوبے کے وسائل، مواقع اور فیصلوں میں حقیقی حصہ ملے۔ یہ ذمہ داری صرف ایک ادارے یا ایک جماعت کی نہیں ہے، بلکہ وفاق، صوبائی حکومت، مقامی انتظامیہ اور تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ جیسا کہ آرمی چیف نے کہا بلوچستان کے نوجوان یقینا اس ملک کا مستقبل ہیں، ان میں چھپی صلاحیتوں کو بیدار کرنا قومی حکمتِ عملی کا اہم عنصر ہونا چاہیے۔ بلوچستان کی سول سوسائٹی اور نوجوانوں کیلئے منعقدہ نیشنل ورکشاپ میں آرمی چیف کی شرکت بجائے خود اس امر کی غماز ہے کہ افواج پاکستان، وفاق پاکستان اور پوری قوم بلوچستان اور بلوچستان کے عوام کی دل سے قدر کرتی ہے، انہیں اہمیت دیتی ہے اور ہر دکھ سکھ میں ان کے ساتھ ہے، تاہم جہاں تک ان کے مسائل کے عملی حل اور محرومیوں کے خاتمے کی بات ہے تو اس کی کلید خود بلوچستان کی حکومت، وہاں کی سیاسی جماعتوں، سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی اور نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ صوبائی حکومت کو اس سلسلے میں لیڈنگ رول ادا کرنا ہوگا اور بلوچستان کی ترقی اور مسائل کے حل کو ترجیح اول بنا کر اس سفر کی قیادت کرنا ہوگی۔ بلوچستان پاکستان ہے اور پاکستان بلوچستان ہے۔

