پاک افغان امن معاہدہ: توقعات، خدشات اور حقائق

پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات پر دونوں اطراف کے امن پسند حلقوں کی جانب سے خوشی اور اطمینان کا اظہا ر کیاگیا۔ افغان عبوری حکومت نے کافی مشکلات کے باوجود پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر یقینا احسن اقدام کیا، تاہم اس عمل پر انھوں نے خود ہی شکوک بھی پیدا کر دیے ہیں۔ افغان وزیر دفاع ملا یعقوب کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم نہ کرنے کا بیان اور مبینہ طورپر دوحہ اعلامیے کے الفاظ میں ”بارڈ” کے لفظ کی تنسیخ نیز بعض افغان رہنماؤں کی جانب سے سرحدوں کو متنازع قرار دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان قیادت دونوں ملکوں کے درمیان قیام امن کے حوالے سے کسی ٹھوس موقف، منطقی رویے اور عملی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہے جس کے بعد مذاکراتی عمل کی افادیت خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔

دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطحی وفود کے درمیان ہونے والی بات چیت جو ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہوئی، فوری جنگ بندی اور پائیدار امن کے نظام اور طریقہ کار کے قیام پر متفق ہونے کے اعلان پر منتج ہوئی۔ مذاکرات میں فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دونوں فریق آئندہ دنوں میں فالو اپ میٹنگز کے ذریعے اس اعلان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی اس عمل کو بین الاقوامی سطح پر پختگی اور اعتماد بخشتی ہے۔ اس پیش رفت کا تقاضا یہ ہے کہ اب دونوں ممالک خلوص، سنجیدگی اور باہمی احترام کے ساتھ دیرپا امن، صلح اور تعاون کو مستحکم بنانے کی کوشش کریں جس سے پورے خطے میں سلامتی اور معاشی استحکام کی راہیں کھل سکیں۔ معاہدے کی تفصیلات کے مطابق دونوں ممالک ٹی ٹی پی اور دیگر غیر ریاستی عناصر کے خلاف انٹیلی جنس کے تبادلے اور ممکنہ مشترکہ کارروائیوں پر متفق ہوئے ہیں تاہم اسی دوران کرم میں افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں کی دراندازی کی کوشش کی خبر بھی سامنے آئی۔ گو کہ فعال سیکورٹی نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا لیکن یہ واقعہ معاہدے کی افادیت اور افغانستان میں موجود طالبان قیادت کی ضمانت اور کنٹرول پر ایک بنیادی سوال کھڑا کرتا ہے کہ آیا کابل یا قندھار امن معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کروا پائیں گے یا نہیں؟ افغان وزیر دفاع کے بیان اور ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم نہ کرنے پر بعض افغان رہنماؤں کے اصرار نے اس سوال کو مزید بامعنی بنا دیا ہے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ملک کے دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کی قیادت اپنی تزویراتی صراحت کو واضح کر چکی ہے۔ ملک کی سرحدیں متعین ہیں اور پاکستان اپنی ایک انچ زمین بھی کسی کو دینے پر تیار نہیں یعنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہ ہونے کا پیغام واضح ہے۔ پاکستان نے اپنے تزویراتی مقاصد کو واضح کرنے کے لیے ہی افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کو فتنة الخوارج کا نام دیا اور ملک و قوم کے باغی، سرکش اور فسادی گروہ کی حیثیت سے ان کی شناخت متعین کی۔ جب اس گروہ کی پشت پناہی سے ہاتھ نہ اٹھایا گیا تو پاکستان نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عسکری طاقت استعمال کر کے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا۔ یہ رویہ ماضی کے طرز عمل سے مختلف تھا اور اس بات کا ثبوت تھا کہ اب معاملات کی نوعیت بدل چکی ہے۔ افغان تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے ایک ایسا ”جال” بچھایا جس سے طالبان حکومت دنیا کی نظروں میں یہ ثابت کرنے پر مجبور ہوگئی کہ یا تو وہ دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتی ہے یا پھر ان سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ بہرحال اب تک ہونے والی بات چیت اور جاری کردہ اعلامیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یا تو افغان عبوری حکومت بین الاقوامی اور اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے سے روکے اور معاہدے پر عمل کرے، بصورت دیگر پاکستان کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے، جس کی تائید ترکیہ اور قطر نے بھی کی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان کے وزیر دفاع کی جانب سے مبینہ طورپر ڈیورنڈ لائن کو غیر سرکاری اور محض خیالی سرحد قرار دینا پاکستان کی علاقائی سالمیت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کو اپنی ریاستی حدود کی حفاظت کا حق حاصل ہے اور یہ حقیقت معاہدے کے باوجود برقرار رہے گی۔ افغان عبوری حکومت میں شامل پاکستان مخالف عناصر اس خواب سے باہر نکل آئیں کہ وہ سرحدوں کی حیثیت کو مشکوک بنا کر دونوں ملکوں کے درمیان امن کی بات چیت جاری رکھ پائیں گے۔ دہشت گردوں کی پشت پناہی اور بھارت کے ساتھ تزویراتی معاملات پر تعاون کی اطلاعات نے دونوں ملکوںکے درمیان برادرانہ نوعیت کو شدید زک پہنچائی ہے۔ اس لیے پاکستان کی سرزمین پر افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے حملے ہوں گے تو افغانستان میں موجود ان کے کیمپس کو نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ وہ نیا معمول ہے جسے پاکستان نے قائم کیا ہے اور جو طاقت کے توازن کو پاکستان کے حق میں موڑتا ہے۔ قومی سلامتی کے تناظر پاکستان کا یہ موقف قومی اور شرعی دونوں سطح پر درست ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے تک کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ لہٰذا پاکستان کو اس موقف پر کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

غزہ پر اسرائیل کے نئے حملے

دہشت گرد اسرائیل نے حماس پر امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزا م عائد کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر بمباری اور امدادی راستوں کی معطلی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ حماس نے اسرائیل کے الزامات کی تردید کی ہے۔ امریکی سرپرستی میں ہونے والے امن معاہدے کے حوالے سے شکوک و شبہات اور تحفظات کا اظہار پہلے ہی کیا جا رہا تھا تاہم ترکیہ اور قطر جیسے ممالک اس معاہدے کے ضامن تھے، ترکیہ نے اسرائیل کو خبردار بھی کیا تھا کہ جنگ مسلط کرنے کی صورت میں اسے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔ اب جبکہ اسرائیل نے دوبارہ حملے شروع کر دیے ہیں، دیکھنا یہ ہوگا کہ مسلم ممالک اس موقع پر کس ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اسرائیل کی دہشت گرد قیادت سے تو امن کی توقع رکھنا ہی حماقت ہے، اس کا رویہ بتا رہا ہے کہ وہ کبھی دو ریاستی حل کو بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ اسرائیل کی دہشت گردی اور سرکشی کا جواب مسلح مزاحمت کو تقویت فراہم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔