امریکا تاریخ کی درست سمت کا انتخاب کرے

اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے درجنوں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد جنگ بندی کے نفاذ پر پھر سے عمل درآمد شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ الجزیرہ کے مطابق جنگ بندی معاہدہ کے نفاذ کے بعد اسرائیل اب تک غزہ میں 98 فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے جبکہ 230 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔اسرائیلی فوج نے غزہ میں 120 راکٹ حملے کیے، اسرائیلی فوج نے حماس کا بہانہ بنا کر غزہ میں شہری آبادی کو بھی نشانہ بنایا۔ قابض فوج کی جانب سے خان یونس کے شمال مغربی علاقے میں بے گھر افراد کے خیموں اور غزہ کے نصیرات کیمپ پر بھی بمباری کی گئی۔

مشرق وسطی کی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ شدید عالمی دباؤ پر جنگ بندی معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی سے باز آنے کو تیار نہیں ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح سے معاہدے کو ناکام بناکر غزہ میں قتل عام کا سلسلہ دوبارہ وہیں سے جوڑا جائے جہاں 10 اکتوبر کو سیز فائر معاہدے کے تحت روکا گیا تھا۔ صہیونی بھیڑیے نیتن یاہو نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے فخریہ انداز میں بتایا کہ اس کے حکم پر اسرائیلی فضائیہ نے صرف اتوار کے دن 153ٹن وزنی بم غزہ کے شہریوں پر گرائے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ میں 70 ہزار سے زائد انسانوں کا خون پینے کے باوجود اس انسان نما درندے کی خون آشامی کی تسکین نہیں ہوسکی ہے اور اگر دنیا نے اسے پٹا نہیں ڈالا تو وہ مزید ہزاروں بے گناہ انسانوں کاخون پی سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نیتن یاہو کی اس بے شرمی اورڈھٹائی کی وجہ یہی ہے کہ اسے انصاف کے کٹہرے میں لائے جانے کا ڈر نہیں ہے کیونکہ دنیا میں انسانیت کا سب سے بڑا علم بردار ملک امریکا اس کی پشت پر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی اور سو سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کے قتل کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ نیتن یاہو کی گوشمالی کرنے کی بجائے الٹا ظلم کے شکار فلسطینیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بد کرداری اور بدعنوانی کی شہرت رکھنے والے امریکی صدر کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ وہ اپنی صہیونیت نوازی اور جنگی جرائم کے سرٹیفائید مجرم نیتن یاہو کی پشت پناہی کے ذریعے نہ صرف اپنی ذات بلکہ خود امریکا کے لیے نفرت کی وہ فصل بورہے ہیں جو جلد یا بدیر پک کر کٹنے کو تیار ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اتوار کے روز امریکا کی 50شہروں میں مجموعی طور پر 70لاکھ افراد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا اور ٹرمپ کی پالیسیوں کو مسترد کیا،مظاہرین کے مطالبات میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا مطالبہ بھی شامل تھا اورا نہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکی جامعات میں اسرائیل مخالف مظاہروں کو دبانے کے اقدامات پر بھی کھلی تنقید کی۔

امریکی صدر ٹرمپ کو شاید اس امر کا بھی ادراک ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدہ توڑنے اور قتل عام جاری رکھنے کی صورت میں عرب ممالک کے ساتھ کیے گئے ان کے چھ ٹریلین ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری ڈوب سکتی ہے اور امریکا کی عالمی تنہائی اور رسوائی میں اضافہ ہوسکتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے داماد جیرڈ کشنر اور خصوصی ایلچی ویٹکوف کو تل ابیب بھیجا ہے اور نائب صدر جے ڈی وینس بھی اسرائیل پہنچ چکے ہیں تاکہ اسرائیل کو جنگ بندی پر قائم رہنے کا پیغام دیا جاسکے۔ عالمی مبصرین کے مطابق جب تک امریکا اسرائیل کی ناز برداری اور اسے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھنے کا لائسنس دیتا رہے گا،نیتن یاہو جنگ بندی کے اس معاہدے پر جس کا ایک ضامن امریکا بھی ہے، تھوکتا رہے گا۔ اگر امریکا مشرق وسطی میں امن کے قیام کا خواہاں ہے اور اسے خلیج سے وابستہ اپنے معاشی مفادات عزیز ہیں تو اسے اب اسرائیل کو لگام دینا ہوگی اور جنگ بندی معاہدے کو اس کی روح کے مطابق آگے بڑھانے کے لیے دیگر ضامن ممالک کی تجاویز اور کوششوں کو بھی اہمیت دینا ہوگی۔ امریکا کی جانب سے جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کو ” دفاع کے حق” کے عنوان سے بے گناہ فلسطینیوں پر بم برسانے کی اجازت دینا شرم ناک امر ہے ۔ یہ حقیقت اب طشت از بام ہوچکی ہے کہ دفاع کے حق کے نام پر اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کی اصلیت کیا ہے۔ بین لاقوامی عدالت انصاف، بین الاقوامی فوجداری عدالت اور خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے تمام تحقیقات اور شواہد کے مکمل جائزے کے بعد یہ بات طے کی جاچکی ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے خلاف دیدہ و دانستہ جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی عدالت انصاف نے فیصلے پر نظرثانی کی نتین یاہو کی اپیل بھی مسترد کردی ہے۔ اس کے بعد بھی اسرائیل کی پشت پناہی جاری رکھنے کا مطلب انسانیت کے خلاف اس کے جرائم میں حصہ داری ہی ہے، اس حصہ داری پر اگر موجودہ دنیا کی کسی عدالت میں امریکا کا محاسبہ ممکن نہیں ہے تو تاریخ کی عدالت میں امریکاکی روسیاہی طے شدہ امر ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ امریکا انسانیت کے خلاف صہیونی دہشت گردی کی پشت پناہی سے دامن چھڑالے اور تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہونے کی جرأت دکھائے۔

مذہبی کارکنوں کا ہدفی قتل کیوں؟

کراچی کے علاقے ناگن چورنگی پر اہلسنّت والجماعت کے مرکز کے قریب دکان پر نا معلوم ملزمان کی فائرنگ سے مذہبی طلبہ تنظیم ایم ایس او کے دو کارکنان شہید ہوگئے۔ ناگن چورنگی میں جامع مسجد صدیق اکبر کے قریب موٹرسائیکل سوار ملزمان دن دھاڑے فائرنگ کے بعدباآسانی فرار ہوگئے۔اس سے چند روز پہلے بھی کراچی میں اہل سنت والجماعت کا ایک کارکن شہید کیا گیا تھا جس کے قاتل تاحال گرفتار نہیں ہوئے۔کراچی شہر میں مذہبی کارکنوں کے ہدفی قتل کے مسلسل واقعات پر دینی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ ملک میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی آگ بھڑکانے کی کسی بڑی سازش کا حصہ ہوسکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں اور سندھ پولیس کو اس ممکنہ سازش کا بروقت ادراک کرنا چاہیے اور مذہبی کارکنوں کے قتل کے واقعات میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے علاوہ علماء کرام اور مذہبی کارکنوں کو تحفظ دینے کے لیے بھی موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔