غزہ نسل کشی۔ کیا موجودہ عالمی نظام ناکام ہو چکا ہے؟

غزہ میں صہیونی افواج کے وحشیانہ محاصرے کے نتیجے میں بھوک اور پیاس سے شہید ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کے سامنے لاکھوں جیتے جاگتے افراد موت کے منہ میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ اس انسانیت سوز ظلم کے خلاف دنیا بھر میں آوازیں بلند کی جا رہی ہیں، مگر غاصب صہیونی گروہ پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ وہ فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کے بہانے بدترین نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس ظلم کے باوجود مسلم دنیا کی جانب سے بیانات اور مذمت کے سوا کوئی ٹھوس کردار ادا نہیں کیا جا سکا، جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ دوسری جانب صہیونی درندوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر مسجد اقصیٰ کی توہین کا دل خراش واقعہ پیش آیا ہے جو فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ایسے واقعات اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کو صہیونی دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں کس نوعیت کی اذیت اور تکلیف کا سامنا ہے۔ اس سنگین صورتحال میں، جہاں ایک طرف فلسطینی نوجوانوں کے پاس مزاحمت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا، وہیں مغربی طرزِ زندگی، انسانیت اور انسانی حقوق کے دعوؤں پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، جس سے اقوامِ متحدہ جیسے عالمی اداروں کا کردار بھی زیرِ بحث آ گیا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی نسل کشی اور مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی کے واقعات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ انسانیت کے نام نہاد دعوے کرنے والے عالمی ادارے اور طاقتور ممالک کس قدر بے بس اور دوہرے معیار کے شکار ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور اسے دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے عقیدے پر حملہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی یہ شرمناک کارروائیاں پورے خطے میں کشیدگی کو ہوا دے رہی ہیں اور مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام کی جانب دھکیل رہی ہیں۔ انھوں نے فوری جنگ بندی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم ریاستوں کی مذمت اور مطالبات سے اب تک تو اہل غزہ کی نسل کشی کا سلسلہ نہ رُک سکا، اب اس رویے سے مزید کس نتیجے کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ مسلم امہ کا ایک سادہ سا سوال ہے کہ تمام مسلم ممالک، بالخصوص پاکستان، ترکیہ، ایران، اور سعودی عرب مل کر مصر پر دباؤ کیوں نہیں ڈال سکتے تاکہ غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسد روانہ کی جائے؟ اسرائیل کی بے لگام دہشت گردی اور ضد کا کسی کے پاس کوئی جواب کیوں نہیں ہے؟ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے بائیس ہزار سے زائد امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ یہ اقدام بھوک، محاصرے اور افراتفری پر مبنی ایک منظم صہیونی پالیسی کا حصہ ہے، جسے جنگی جرم اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ساتھ وہ ریاستیں بھی اس جرم میں شریک ہیں جو خاموشی یا بالواسطہ مدد کے ذریعے اس پالیسی کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ، غزہ میں خوراک کی کمی کے بعد اب پانی کا بھی سنگین بحران جنم لے رہا ہے، کیونکہ اسرائیلی حملوں میں پانی کی سپلائی لائنز تباہ ہو چکی ہیں اور شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسا نہیں کہ خود غاصب گروہ کے شہریوں کو اس جنگ سے کسی مشکل کا سامنا نہیں؟ فلسطینی مزاحمت کے ہاتھوں روزانہ ہی اسرائیل کے دہشت گرد فوجی جہنم رسید ہو رہے ہیں جبکہ تازہ اطلاعات کے مطابق مزاحمت کاروں کے ہاتھوں میں موجود قیدیوں کو اب بہت کم کھانا اور پانی دیا جا رہا ہے اور ان کی تصاویر اور ویڈیو بھیج کر صہیونی اور یہودی عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ اگر غزہ کے بچے بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے ہیں تو تمھارے بچے بھی سکون کا سانس نہیں لے سکیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیلی سکیورٹی چھ سو سے زائد سابق اعلیٰ عہدیداروں نے امریکی صدر ٹرمپ کو لکھے گئے ایک خط میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے اور حماس کو اب اسرائیل کے لیے خطرہ نہ قرار دینے کا موقف اختیار کیا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ خود اسرائیل کے اندر بھی اس پالیسی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن انسانیت کا مجرم نیتن یاہو صرف اپنے اقتدار کی خاطر انسانوں کو خطرات میں دھکیلتا جا رہا ہے لیکن دنیا بھر کی ریاستیں اس دہشت گرد کو ظلم اور فساد سے روکنے کے لیے قرار واقعی اقدام سے عاجز ہیں۔

ایسے میں اقوام متحدہ کا متنازع کردار بھی عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ ادارہ اپنے منشور کے مطابق دنیا بھر میں انسانی فلاح و بہبود کے لیے انصاف کے ساتھ کام کرنے کا پابند ہے لیکن وہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا کہیں بھی سدباب نہیں کر پایا۔ سلامتی کونسل کا غیر منصفانہ ڈھانچہ اور ویٹو پاور، جہاں پانچ مستقل ارکان کی مرضی کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں ہو سکتی، عالمی انصاف کے تصور کو مجروح کرتا ہے۔ دنیا میں طاقت کا توازن بدل چکا ہے، مگر یہ ڈھانچہ اب بھی انیس سو پینتالیس کا ہے۔ بھارت، جاپان، برازیل، جرمنی یا افریقی ممالک جیسے بڑے کھلاڑی اس میں شامل نہیں۔ اقوام متحدہ، بڑے طاقتور ممالک کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کر پاتی، اور قراردادوں کے اطلاق میں بھی دہرا معیار اختیار کیا جاتا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے بارے میں دہائیوں سے منظور شدہ قراردادیں آج تک نافذ نہیں ہو سکیں، جبکہ عراق، لیبیا یا صومالیہ میں کارروائیاں بہت جلد عمل میں آ جاتی ہیں۔ امن فوج کی موجودگی بھی کئی بار تنازعات روکنے یا متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو بچانے میں ناکام رہی ہے، جیسا کہ روانڈا اور بوسنیا میں دیکھا گیا۔ یہ ادارے کی پیچیدہ اور طاقت کے چند ہاتھوں میں مرکوز تنظیمی ساخت کا نتیجہ ہے، جس میں اصلاحات لانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ تمام حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ موجوودہ عالمی نظام ناکام ہوچکا ہے اور اقوام متحدہ طاقتور ممالک کے سیاسی اثر و رسوخ میں جکڑا ہوا ہے، اور اس کے فیصلے عالمی طاقتوں کے جیوپالیٹیکل مفاد کے تابع رہتے ہیں۔

غزہ کی صورتحال ایک منظم نسل کشی ہے، جس میں ظالم صہیونی ریاست بین الاقوامی قوانین اور انسانی اخلاقیات کی تمام حدود پار کر چکی ہے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، جس میں بھوک، پیاس، اور جنگی جرائم شامل ہیں، محض ایک فوجی آپریشن نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ایک بدترین جرم ہے۔ موجودہ حالات میں مسلم ممالک کی خاموشی یا محض مذمتی بیانات، شرعی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے قابلِ افسوس ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک متحدہ محاذ قائم کریں اور عملی اقدامات کے ذریعے اہل غزہ کی مدد کو یقینی بنائیں۔ طاقتور مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھنا بھی فطری ہیں، کیونکہ ان کے قول و فعل میں تضاد واضح ہے۔ یہ محض ایک علاقائی تنازعہ نہیں، بلکہ عالمی عدل و انصاف کے تقاضوں کا امتحان ہے، جس میں عالمی برادری کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور انصاف کے لیے عملی طور پر کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ ضروری ہے کہ وہ طاقت کے بجائے حق کی حمایت کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے لیکن ظلم پر خاموش رہنے والوں کو بھی کوئی نہ کوئی سزا ملتی ہے۔