دوسری قسط:
دنیا کی بڑی حقیقتوں میں ایک حقیقت تغیر ہے۔ تغیر کا پہیہ نہ روکا جا سکتا ہے نہ الٹا گھمایا جا سکتا ہے۔ لکھائی اور چھپائی کی دنیائوں میں یہ تغیر مسلسل رہا ہے۔ انسان نے لکھائی کی ضرورت محسوس کی یا اظہار کرنا چاہا تو مٹی اور پتھروں پر تصویریں اور اشکال بنانا شروع کیں۔ یہ ایک طرف تصویر کشی اور نقش ونگار کے فن کی ابتدا تھی اور دوسری طرف بولیوں کو تحریر کرنے کی۔ اس وقت انسان کو شاید علم بھی نہیں ہوگا کہ وہ کن فنون کی بنیاد رکھ رہا ہے اور آگے چل کر کتاب معاشرو ں میں کیا کردار ادا کرے گی۔ ہر خطے میں الگ الگ بولیاں تھیں اور الگ الگ تحریریں۔ لیکن یہ کتاب کی ابتدا تھی۔ بے شمار بند دروازے کھل جانے کے بعد بھی بہت سے بھید ابھی تک منتظر ہیں۔ ہڑپہ اور موہنجو دڑو کی تحریروں کے راز اب تک مقفل ہیں۔ روزیٹا پتھر مصر کے شہر رشیدیہ کی کھدائی میں برآمد نہ ہوتا تو ہم سمجھ ہی نہ پاتے کہ فراعنہ کے مصر کے معبدوں’ مقبروں’ عمارتوں اور سنگی سلوں پر یہ جو بگلے’ مگرمچھ’ بلی’ بکری اور انسان کی شکلیں بنی ہوئی ہیں’ ان کا مطلب کیا ہے؟ روزیٹا پتھر نے یہ راز افشا کیا کہ یہ سب کسی خاص لفظ یا معنی کی علامتیں ہیں۔ اسے ڈی کوڈ کرنے سے ہی معلوم ہوا کہ اگر ان شکلوں کا رخ دائیں طرف ہو تو کیا مراد ہے۔ بائیں طرف ہو تو مطلب کیا ہو گا؟ اب انسانی اظہار مٹی اور پتھروں سے آگے بڑھ کر پائپرس تک پہنچ چکا تھا۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات کے احکام نازل ہوئے۔ شاید یہ سنگی الواح تھیں جن پر احکام رقم تھے۔ الواح اور لکھائی کی نوعیت تو ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ حکم جانتے ہیں کہ ”ہم نے اس تختیوں میں ہر چیز کی نصیحت اور تفصیل لکھ دی’ (اور فرمایا: اے موسیٰ!) اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ اس کی اچھی باتیں اختیار کریں” (الاعراف: 145)
قرآن کریم نازل ہوا تو چوڑی ہڈیوں’ کھالوں’ چمڑوں اور چھالوں پر محفوظ ہوا۔ کاغذ عرب ہی میں نہیں’ ساری دنیا میں نایاب چیز تھی۔ آج آپ ہڈیوں اور چمڑے پر لکھائی محفوظ کرنے کی کوشش کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ کتنا کٹھن کام ہے۔ لیکن یہی کتاب کی ارتقائی شکل تھی۔ کاغذ تو اس کے بہت زمانوں بعد تک نادر چیز رہی۔ کم وبیش ہمارے بچپن تک کاغذ کی اہمیت یہ تھی کہ بزرگ کسی کاغذی ٹکڑے کو پڑا دیکھتے تو اسے اٹھا کر استعمال میں لاتے یا کہیں اوپر رکھ دیتے’ خواہ اس پر کچھ بھی نہ لکھا ہوتا۔ اس کی وجہ یہ اہمیت تھی کہ اس پر مقدس کلام لکھا جاتا ہے اور اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ آہستہ آہستہ دنیا کتاب کے عروج کی طرف بڑھی۔
میرے خیال میں ستر اور اسی کی دہائیوں نے’ جو ہمارا بچپن اور لڑکپن تھا’ کتاب کا دورِ عروج دیکھا۔ اگرچہ ٹیلی ویژن نے معاشرے میں قدم رکھ کر کتاب کا حصہ اپنی جھولی میں ڈالنا شروع کر دیا تھا لیکن اس کا وقت اور دائرہ محدود تھا؛ چنانچہ کتاب سے ہر نسل کی گہری وابستگی موجود تھی۔ اسی طرح کاغذ کی ملوں کی بڑھتی تعداد’ بہترین کاغذ کی پیداوار’ بہتر پرنٹنگ مشینوں کی موجودگی’ نئی ٹیکنالوجی’ اشاعتی سہولتوں نے کتاب کیلئے بہت سے دروازے کھول دیے تھے۔ گلی محلوں میں کتابوں کی چھوٹی چھوٹی دکانیں موجود تھیں جہاں غیر نصابی کتابیں بھی ملتی تھیں۔ اسی طرح چند آنے کرائے پر لائبریریاں بھی ہر جگہ کھلی ہوئی تھیں’ جہاں کتاب کرائے پر لاکر پڑھی جا سکتی تھی۔ اخبارات کے اسٹال الگ تھے اور ہاکر الگ۔ ان سے ڈائجسٹ بھی منگوائے جا سکتے تھے’ جنہیں کتاب ہی کی ایک شکل سمجھنا چاہیے۔ یہ ڈائجسٹو ں کے آغاز اور فروغ کا دور بھی تھا۔ ہر چھوٹے بڑے بازار میں کتابوں کی کئی کئی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ صرف انارکلی بازار میں کتابوں کی کم از کم پندرہ بیس چھوٹی بڑی دکانیں تھیں۔ استعمال شدہ کتابوں اور رسالوں کے بازار الگ تھے اور ان سب پر گاہک موجود تھے۔ غیر ملکی زبانوں کی کتابوں کے دھڑا دھڑا تراجم ہوتے تھے اور ناشرین ان میں سبقت لے جانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ہر ناشر کی جدید ترین مطبوعات کا پہلے سے اعلان ہوا کرتا تھا اور فہرستوں میں ان کے الگ سے صفحات ہوتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دو تین دہائیاں کتاب کا سنہرا دور کہلا سکتی ہیں۔ لیکن تین عشروں کے بعد یہ سفر نہ صرف رک گیا بلکہ کتاب کے زوال کا سفر شروع ہوا۔ یاد رہے کہ میں یہاں صرف کاغذی کتاب کی بات کر رہا ہوں۔ کاغذی کتاب کے اس زوال میں جدید ٹیکنالوجی کی آمد بھی اپنی جگہ لیکن وجوہات میں ہماری اپنی غلطیاں بھی شامل رہی ہیں’ جن کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چاہے وہ ناشرین کی مفاد پرستی ہو یا سرکاری بے حسی۔ کاغذ کی مہنگائی’ ناشرین کے بے اصول رویے’ کتاب کی خدمت کے بجائے مال و زر کی ہوس’ یہ وہ سبب تھے جنہوں نے اس آگ پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو کتاب کے دورِ عروج میں صرف پیسے کیلئے اس میدان میں آئے اور یہ دور ختم ہوتے ہی کسی اور طرف نکل گئے۔
جن تغیرات نے کتاب کے زوال میں بڑا کردار ادا کیا انہیں روکا تو نہیں جا سکتا تھا لیکن کچھ اقدامات سے ان کی رفتار کم ضرور کی جا سکتی تھی۔ افسوس ہے کہ ہم یہ بھی نہ کر سکے۔ نہ سرکاری سطح پر’ نہ نجی سطح پر۔ حکومتوں نے کتاب کے فروغ کیلئے محکمے تو ضرور قائم کیے اور ہمارے یہاں بھی نیشنل بک فائونڈیشن قائم ہوا لیکن اس کے بعد معاملہ ختم! یہ ادارے اپنا کام ٹھیک کر رہے ہیں یا نہیں’ جن مقاصد کیلئے بنائے گئے تھے’ اس طرف کیا پیشرفت ہے’ کیا یہ صرف اپنے عملے کی تنخواہیں نکال رہے ہیں یا کتاب کے فروغ میں بھی کوئی کام کیے گئے؟ بدقسمتی سے اکا دکا مثالیں چھوڑ کر این بی ایف کی پوری عمر میں ایسے کام نہیں ڈھونڈے جا سکتے۔ سیاسی تعیناتی سے وہ اَن گنت سربراہ دیکھے جنہیں یہ ادارہ’ محفل آرائی اور دوست نوازی سے زیادہ محبوب نہیں تھا۔ مزید بدقسمتی یہ کہ اس نے خود پبلشر بننے کی نہ صرف ٹھان لی بلکہ اس راہ پر چل نکلا جبکہ اسے ناشر بننے کیلئے نہیں بنایا گیا تھا۔ مزید بدقسمتی یہ کہ اس نے وہی کتابیں چھاپنا شروع کیں جو پہلے سے چھپی ہوئی تھیں۔ اس طرح وہ ایک مقابلہ باز بن کر دیگر ناشرین کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ حکومتی وسائل کا نجی ناشرین کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر جب حکومتی ادارے کو یہ پروا بھی نہ ہو کہ کتاب چھاپنے کا فائدہ یا نقصان ہوگا کیا؟ میں نے کئی بار ذمہ داروں سے عرض کیا کہ نیشنل بک فائونڈیشن کے بنیادی مقاصد کتاب کے فروغ کی کوششیں’ ناشرین کو درپیش مسائل کا حل’ کاپی رائٹس یعنی حقوق کا مؤثر قانون بنانا’ دوسرے ممالک کے ایسی ہی اداروں سے مل کر ایک دوسرے کی کتابوں کے تراجم کرنا وغیرہ ہیں۔ اس کا کام کتاب کو سستا کرنے کے عملی طریقے ڈھونڈنا تھا جو اس نے کبھی نہیں کیا۔ کچھ قابل تحسین کام ضرور ہوئے جن میں ریڈرز بک کلب یا بک فیئر وغیرہ ہیں’ لیکن پوری تاریخ دیکھی جائے تو کتاب کیلئے کچھ نہیں ہوا۔ اگر آپ تمام افسروں اور عملے کی تنخواہوں کو بھی کتاب کیلئے کام تصور کرتے ہوں تو بات الگ ہے۔ یہی حال صوبائی محکموں کا تھا۔ آپ کتاب اور ادب کیلئے قائم اداروں کی کارکردگی دیکھیں تو حیرانی ہوگی۔
ادب براہِ راست کتاب سے جڑا ہوا تھا اس لیے کتاب کا زوال اس پر اثر انداز ہونا لازمی تھا۔ لیکن جو شعبہ یا فن کتاب کی اہمیت کم ہونے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ جلد سازی ہے۔ لاہور میں فنکار جلد ساز موجود تھے۔ ان میں سے ایک دھوبی منڈی’ پرانی انارکلی کے کاظمی صاحب بھی تھے۔ میرے خیال میں چمڑے’ ریکسین’ پولیتھین اور مراکو کی جلد سازی میں ان سے بہتر کسی فنکار کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جلد ایسی آئینہ کر دیتے تھے کہ بقول شخصے اپنا چہرہ دیکھ لیں۔ بہت سے نامور جلد ساز جنہوں نے بعد میں بہت کام کیا’ کاظمی صاحب کے شاگرد تھے۔ وہ شاید بے اولاد تھے اور ان کے ساتھ ہی ان کا کارخانہ بھی ختم ہوگیا۔ اگر بیروت اور عرب ممالک کی جلد سازی کے مقابلے میں کچھ پیش کیا جا سکتا تھا تو وہ یہی کام تھا۔ یہ خالص فن تھا اور بدقسمتی سے ہر مشرقی فن کی طرح اس کی عمر بھی محدود تھی۔ (جاری ہے)

