اولیاء اللہ، بزرگانِ دین اور اکابرینِ امت بڑی تیزی سے دنیا سے اٹھتے جا رہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے اتنے سارے علمائے کرام اور مشائخ عظام کا دنیا سے چلے جانا قربِ قیامت کی علامات میں سے ہے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ نیک لوگ یکے بعد دیگرے دنیا سے گزر جائیں گے، پیچھے گھٹیا جو یا ردی کھجور کی طرح کچھ لوگ رہ جائیں گے، جن کی اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی پروا نہیں کریں گے۔ مشہور عربی مقولہ ہے: موت العالم موت العالم کہ ایک جید عالم دین کی موت درحقیقت پوری دنیا کی موت شمار ہوتی ہے۔ رواں ہفتے ملک کی دو عظیم اور بہت ہی معتبر روحانی شخصیات داغ مفارقت دے گئیں۔ پہلی بڑی شخصیت حضرت مولانا شیخ عبد الرحیم نقشبندی صاحب ہیں۔ یہ حضرت مولانا شیخ غلام حبیب نقشبندی رحمہ اللہ کے جانشین تھے۔ ان کا شمار بڑے اکابر اور اولیاء اللہ میں سے ہوتا تھا۔ یہ 13دسمبر 2025کو وفات پاگئے۔ شیخ عبد الرحیم نقشبندی ایک مصلح اور مربی تھے۔ آپ کے لاکھوں مریدین ہیں۔ آپ کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصلاحِ امت کا کام لیا۔ سینکڑوں گمراہ لوگوں کو ہدایت ملی۔ ہزاروں افراد کی زندگیاں تبدیل ہوئیں۔ وہ گناہ کے اندھیروں سے نکل کر نیکی کی روشنی کی طرف آئے۔ جرائم سے توبہ تائب ہوئے۔ آپ کے بیانات میں اللہ تعالیٰ نے عجیب تاثیر رکھی تھی۔ بات دل سے نکلتی اور سیدھی دل پر اثر انداز ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ عبد الرحیم نقشبندی کی کامل مغفرت فرمائیں۔
دوسری بڑی شخصیت محبوب العلماء والصلحائ، پاکستان کی مشہور و مقبول شخصیت، صوفی بزرگ حضرت مولانا حافظ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی کی وفات ہے۔ حضرت جی کا انتقال 14دسمبر 2025بروز اتوار ہوا۔ مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی یکم اپریل 1953کو صوبہ پنجاب، پاکستان کے شہر جھنگ میں ایک کھرل خاندان میں پیدا ہوئے۔ حضرت دینی و عصری اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ 1967میں میٹرک اور 1972میں پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی الیکٹریکل انجینئر کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں LUMS یو نیورسٹی سے ہیومن مینجمنٹ ریسورس کا کورس کیا۔ جب آپ لاہور یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اس دوران عمدة الفقہ کے مصنف سلسلہ نقشبندیہ کے نامور بزرگ سید زوار حسین شاہ صاحب سے مکتوبات مجددالف ثانی سبقاً سبقاً پڑھی، پھر جامعہ رحمانیہ جہانیاں منڈی اور جامعہ قاسم العلوم ملتان سے دور حدیث کی اعزازی ڈگری بھی حاصل کی۔ امریکا میں جنرل منیجر پلانگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے عہدے پر فائز رہے بعد ازاں 40سال کی عمر میں نوکری چھوڑ کر دینی کاموں میں مصروف ہو گئے۔
پیر سید زوار حسین شاہ صاحب کے انتقال کے بعد خواجہ غلام حبیب نقشبندی مجددی سے 1980میں بیعت ہوئے، 1983میں خلافت سے سرفراز ہوئے۔ پنجاب کے علاقے جھنگ میں معہد الفقیر کے نام سے ایک بہترین، وسیع اور شاندار تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ یہاں حفظ قرآن، درس نظامی اور دیگر دینی کورسز پڑھائے جاتے ہیں۔ 2013اور 2014 میں آپ دنیا کے 500با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل تھے۔ خطبات فقیر سمیت 200سے زائد کتا بیں تصنیف کیں۔ دنیا کے متعدد ممالک کے تبلیغی اسفار کیے، دنیا بھر میں آپ کے چاہنے والے موجود ہیں۔ آپ کے خلفاء میں نامور علماء و صوفیاء شامل ہیں۔ آپ سے فیض حاصل کرنے والے ساتوں براعظموں میں پھیلے ہوئے تھے۔ آپ کے خلفاء اور مریدین اتباع سنت کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔ جو ایک مرتبہ آپ کی مجلسِ ذکر میں بیٹھ جاتا، اس کی زندگی بدلنا شروع ہو جاتی تھی۔ آپ کی صحبتِ کیمیاء کا یہ اثر ہوتا۔ ہمیں متعدد بار حضرت پیر جی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پہلی مرتبہ ہم 2018میں ملے تھے۔ ہم نے اخبار کے لیے انٹرویو بھی کیا تھا اور آخری مرتبہ اس سال 2025میں ملاقات ہوئی۔ اس مرتبہ بالکل خاموش تھے اور زبان پر اللہ کا ذکر جاری تھا۔ سب خلفائ، مریدین، علمائ، طلبہ اور ملنے والوں سے بس ایک ہی بات کی تاکید کر رہے تھے کہ اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کریں، اتباعِ سنت کا اہتمام کریں اور اپنے معاملات صاف رکھیں۔
جانے والے دنیا سے چلے جاتے ہیں، لیکن ایک بہت بڑا خلا چھوڑ جاتے ہیں۔ جانے والے کے لیے بہترین توشہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔ پسماندگان، لواحقین، رشتے دار، دوست احباب، مریدین اور خلفاء وغیرہ قرآن پڑھ پڑھ کر ایصالِ ثواب کریں۔ صدقہ خیرات کا اہتمام کریں۔ نیکیاں کر کے اس کا ثواب بخشیں۔ ان کے جاری کردہ کاموں، ان کے شروع کردہ اداروں اور منصوبوں کو بہترین انداز میں نہ صرف قائم رکھیں بلکہ اسے کئی اعتبار سے بڑا کریں۔ آگے پھیلائیں۔ اس کی آبیاری کریں۔ سب سے آخری بات یہ ہے کہ جو بھی ذی روح اس دنیا میں آیا ہے، اس نے جلد یا بدیر ضرور جانا ہے۔ کسی کو بھی موت سے مفر نہیں۔ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی تیاری رکھیں۔ گناہوں سے پکی سچی توبہ کریں۔ دوسروں کے حقوق ادا کریں۔ اعمالِ صالحہ کا اہتمام کریں۔ ظلم، ناانصافی، بدزبانی، بدعنوانی وغیرہ سے بچیں۔ اپنے تمام معاملات شفاف رکھیں کہ نجانے کب موت کا فر شتہ آ جائے۔ اللہ والوں کے جنازوں کا یہی پیغام ہوتا ہے۔

