2025ء: کیا کتابیں پڑھیں، کیا اخذ کیا؟

پچھلے دس بارہ برسوں میں ہر سال دسمبر کے وسط میں اپنی سال بھر کی پڑھی کتابوں کے حوالے سے کالم لکھتا رہا اور اس کے بعد نئے سال کی ابتدا میں کتابوں کے حوالے سے اپنی وش لسٹ مرتب کرتا۔ مقصد یہی تھا کہ اپنے پڑھنے والوں سے شیئرنگ کی جائے، اپنے مطالعے، اپنے خیالات، سوچ اور ساتھ کتب بینی کو فروغ دینے کی کوشش بھی۔ رفتہ رفتہ کتابوں کے مطالعے میں کمی آنے لگی، میرا خیال ہے کہ 2024میں اس حوالے سے کچھ نہیں لکھ سکا۔ یہ سال یعنی 2025البتہ مجھے پھر سے کتابوں کی دنیا میں لے آیا۔

رواں سال میں نے انگریزی میں کتابیں خاصی پڑھیں، ڈان لوڈ تو بہت سی کیں، ان پر سردست اس لیے نہیں لکھ رہا کہ شاید بہت سی پاکستان میں دستیاب ہی نہ ہوں، الگ سے شاید لکھ دوں، انٹرنیشنل اخبارات بھی اس سال زیادہ تواتر سے پڑھے، اہم عالمی میگزین بھی پڑھنے کا بہت موقع ملا۔ اردو کتابیں بھی کئی پڑھیں، ابھی چند ایک ایسی ہیں جو خریدیں یا کسی نے بھیجیں، مگر ابھی تک نہیں پڑھ پایا، چند دن رہتے ہیں، اللہ نے چاہا تو پڑھ لوں گا۔

اس سال جو کتاب مجھے سب سے زیادہ پسند آئی، جس کا ورق ورق پڑھا، جس پر اپنی وال پر لکھ بھی چکا ہوں۔ وہ کتاب معروف فکشن رائٹر، بیوروکریٹ، دانشور اقبال دیوان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ہے۔ نام دلچسپ ہے: ”داستان ہے پیارے”۔ میرے خیال میں اگر کسی نے صرف ایک کتاب خریدنی ہو تو یہ کتاب آنکھیں بند کر کے لے لے، تاہم ایسا بدذوق کون ہوگا جو سال کے آخر میں بھی صرف ایک کتاب ہی لینا چاہے گا؟ ہمارے حساب سے کم از کم دس بارہ کتابوں کی فہرست تو بنانی چاہیے، کراچی کتاب میلہ 18دسمبر سے 23دسمبر تک رہے گا، کراچی اور سندھ کے بہت سے کتاب دوست اس میلے سے فائدہ اٹھائیں گے، اس بار ان شاء اللہ میں بھی اس میں شریک ہوں گا۔ لاہور میں کتاب میلہ فروری کے مہینے میں ہوتا ہے، دیگر بڑے شہروں میں بھی کتاب میلے سردیوں کے ان چند مہینوں میں ہوتے ہیں، اپنی اپنی ترتیب بنا لیں، مگر جو بھی فہرست ہو، اس میں اقبال دیوان کی کتاب کسی نہ کسی نمبر پر آئے گی ضرور، میری ریکمنڈیشن میں البتہ یہ ٹاپ پر ہے۔

اس سال اردو بائیوگرافیر زیادہ پڑھنے کو ملیں۔ جناب اظہارالحق ہمارے بہت اچھا لکھنے والے ہیں، اعلی درجے کے کالم نگار، نہایت عمدہ شاعر اور اتنے ہی اچھے انسان۔ اظہار الحق سینیئر بیوروکریٹ رہے ہیں، اکاؤنٹس اینڈ آڈٹس میں سینیئر ترین پوزیشنز پر رہے ہیں، ایسے عہدے جہاں پر سال دو سال کام کرنے والے بھی کروڑوں، اربوں میں کھیلنے لگتے ہیں۔ یہ درویش طبع انسان تمام عمر وہاں کام کرنے کے بعد بھی دھلے ہوئے بے داغ دامن کے ساتھ نکل آیا۔ یہ سب مگر آسان نہیں تھا، بہت سی مشکلات، مسائل اور کٹھنائیاں دیکھنا پڑیں، نفس کے لیے آزمائشیں بھی۔ اظہار الحق نے یہ سب کچھ اپنی خودنوشت ”بکھری ہے میری داستاں” میں رقم کیا ہے۔ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اظہار الحق صاحب کو ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) سے ماسٹر ڈگری کرنے کا موقع ملا، ان کی اس حوالے سے یادیں بڑی دلفریب اور دلچسپ ہیں۔ وہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بہت خوبصورت لکھتے ہیں، دلدوز بھی، جو دل کو چیر ڈالے۔ اقبال دیوان اور اظہارالحق دونوں کی کتابیں بک کارنر جہلم نے شائع کی ہیں۔

حسین نقی ہمارے بہت ممتاز، سینیئر اور نہایت ہی اعلی ساکھ رکھنے والے صحافی ہیں۔ صحافت میں جنہیں ڈیڈ آنسٹ سمجھا جاتا ہے، ہر قسم کی لالچ، ترغیب سے جو بے نیاز رہے، دیانت اور حق بیانی کو اپنا شعار بنایا اور تمام زندگی سختی سے اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ ان کی خودنوشت مجھ سے جو ہو سکا چند ماہ قبل جمہوری پبلی کیشنز کے برادرم فرخ سہیل گوئندی نے شائع کی۔ کمال کتاب ہے۔ انداز اس کا بیانیہ زیادہ ہے، ایک صحافی کی رپورٹنگ جیسا، اس میں ادیبوں والی نثر یا لفظوں سے زیادہ نہیں کھیلا گیا، مگر اس سے دلچسپی میں کمی نہیں آئی۔ بہت سے انکشافات اس میں ہیں، کئی نئی باتیں پڑھنے کو ملیں۔ صحافت اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ پاکستان کی قومی تاریخ کو جاننے اور کہاں کہاں ہم سے بلنڈر ہوئے، یہ بھی جاننے کے خواہشمند اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔

قیوم نظامی معروف سیاسی کارکن، مصنف اور کالم نگار ہیں، وہ کئی کتابیں لکھ چکے ہیں، بھٹو صاحب پر ان کی کتاب مشہور ہوئی۔ امریکی کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس پر کتاب لکھی، ان کی کتاب معاملات رسولۖ بہت مشہور ہوئی، کئی ایڈیشن فروخت ہوئے۔ اس سیریز میں کئی گراں قدر کتابوں کا اضافہ ہوا۔ قیوم نظامی صاحب بزرگ ہیں، اسی کے پیٹے میں مگر پیرانہ سالی ان کے علمی کاموں میں رکاوٹ نہیں بن پائی۔ وہ مسلسل لکھ رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں، عوامی شعوری کی تحریک جاگو چلاتے ہیں۔ ان کی کتاب سیاسی وصیت اس سال پڑھنے کو ملی۔ یہ نظامی صاحب کی سماجی، سیاسی آپ بیتی ہے اور اس میں انہوں نے اپنے تجربے، مشاہدے اور فکر کی روشنی میں ملکی مسائل کا جمہوری، سیاسی حل بھی تجویز کیا ہے۔ یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم نے شائع کی ہے۔ قلم فاؤنڈیشن ہی نے استاد محترم جناب الطاف حسن قریشی کی کتاب ”پیارے مولانا” شائع کی ہے۔ یہ سید ابوالاعلی مودودی کے دو انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ کتاب گو مختصر ہے، مگر دلچسپ اور اہم ہونے کے ناتے ان شااللہ اس پر الگ سے لکھوں گا۔

عبدالستار اعوان ایک نوجوان انٹرویور ہیں، وہ بڑی محنت سے تفصیلی انٹرویوز کرتے ہیں، انہوں نے اپنے انٹرویوز پر مبنی ایک کتاب اوراق زندگی کے نام سے مرتب کی۔ اس کتاب پر کئی بار لکھنا چاہا، مگر اس لیے گریز کیا کہ اس میں خاکسار کا بھی ایک بہت تفصیلی، بھرپور انٹرویو شامل ہے۔ ایسا جو الگ کتاب بن سکتا ہے۔ خودنمائی کے خدشہ سے اس کتاب پر نہیں لکھا، اب یہ خیال آیا کہ اس کتاب میں جو دیگر درجن بھر شخصیات ہیں، ان کے انٹرویو کا تذکرہ تو بنتا ہے۔ جناب صولت رضا آئی ایس پی آر میں سینیئر پوزیشنز پر رہے ہیںِ ان کی کتاب کاکولیات کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوئے، دیگر کتب بھی چھپ چکی ہیں، ان کا بہت تفصیلی انٹرویو اس کتاب اوراق زندگی میں شامل ہے، یہ شاید الگ سے کتابی شکل میں بھی آچکا۔ ڈاکٹر یوسف عالمگیرین انٹر سروسز پبلک ریلیشن کے معروف جریدے ہلال کے ایڈیٹر کے طور پر مشہور ہوئے، مگر ان کی اپنی شخصیت بھی کم زوردار نہیں۔ ان کا بھرپور انٹرویو اس میں ہے۔ سینیئر صحافی ایثار رانا، معروف کالم نگار حافظ شفیق الرحمان، امیر نواز نیازی کے انٹرویوز کے علاوہ لاہور کی ایک معروف اور متحرک شخصیت وحید چودھری صاحب کا انٹرویو بھی کتاب کی زینت بنا۔ جن لوگوں کو وحید چودھری صاحب کو سننے کا اتفاق ہوا ہے، وہ ان کی معلومات، مشاہدات، تجربات کے مداح ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سی کتابوں کے مصنف، ملف متین خالد صاحب کا بھرپور انٹرویو بھی عبدالستار اعوان نے شامل کیا۔ ریٹائر ڈپٹی کمشنر عبدالغفور چودھری کی اب الگ سے کتاب شائع ہوئی ہے۔ سپاہی سے ڈپٹی کمشنر تک۔ یہ انٹرویو شاید اس کتاب کی وجہ بنا۔ سابق طالب علم رہنما انور گوندل، جنگ ستمبر کے ہیرو میجر جنرل شفیق احمد، میاں ابراہیم طاہر اور زاہد بلند شہری کے انٹرویوز بھی ہیں۔ یہ کتاب بھی قلم فاؤنڈیشن نے شائع کی۔

ایک کتاب جس کا ابتدا میں ذکر کرنا چاہیے تھا کہ وہ ہمارے بہت محترم جناب ہارون الرشید کے کالموں کا انتخاب ہے، ناتمام۔ ہارون صاحب فسوں خیز قلم کار ہیں، ان کے مداحوں میں قارئین کی دو نسلیں شامل ہیں۔ خاکسار ہارون الرشید کا دیرینہ مداح اور نیازمند ہے۔ مجھے ہارون صاحب کی شفقت اور رہنمائی بھی حاصل رہی۔ بدقسمتی سے ہارون الرشید صاحب کا کام کتابی صورت میں شائع نہیں ہوسکا۔ ان کے صاحبزادے بلال الرشید نے اس بار کوشش کرکے یہ پہلی کتاب شائع کی ہے۔ کتاب کا مواد تو خیر ہے ہی شاندار، اشاعت بھی حسین ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ ہارون صاحب کے دیگر کالموں کا انتخاب بھی شائع ہوگا، میرے خیال سے کم از کم چار پانچ جلدیں مزید آنی چاہییں۔ کتاب غالباً بلال الرشید نے خود چھاپی ہے۔ ضرور پڑھیں۔ (جاری ہے)