یہ میرے لیے زندگی کا پہلا موقع تھا کہ اپنے سامنے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو ایک ساتھ بیٹھا دیکھوں اور ان کی گفتگو سنوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کروں کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ وہ ملک کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور ملکی مسائل کس طرح حل کرنا چاہتے ہیں؟ تقریب میں ملک بھر سے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام ، مشائخ عظام،خطباء ، مدرسین اور مذہبی رہنما مدعو تھے۔ تقریب کا اصل مقصدملک کے دفاع اور سلامتی کو درپیش چیلنجوں کے تناظر میں حکومت،فوج اور ریاستی اداروں اور علماء کرام و مذہبی طبقات کے درمیان ہم آہنگی اور یکجہتی کی فروغ دینا تھا۔
تقریب شروع ہوئی اور سب سے پہلا خطاب ہی فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر صاحب کا تھا، انہوں نے آکر گفتگو شروع کی اور تین بنیادی نکات بہت واضح طور پر بتا دیے: پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ، پاکستان کو درپیش معاشی چینلج اور مدارس سے متعلق ان کی نیک نیتی۔ انہوں نے بہت واضح لفظوں میں ذکر کیا کہ کون کہتا ہے فوج مدارس کے خلاف ہے؟ ہم مدارس کے ساتھ ہیں اور رہیں گے، کوئی طاقت مدارس پر پابندی نہیں لگا سکتی۔ ہم نے مدارس کو بہت سی مراعات اور سہولیات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے دینی مدارس کے مثبت کردار کا اعتراف کرتے ہوئے مدارس اور علماء سے وابستہ کچھ توقعات اور کچھ تاثرات کا بھی ذکر کیا جس کا پیرایہ مجموعی طور پر مثبت اور تعمیری تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملک میں جاری دہشت گردی اور اس میں موجودہ افغان حکومت کے واضح کردار پر گفتگو کی اور افسوس کا اظہار کیا کہ حکومتی سطح پر بے شمار بار کوششیں ہوئیں کہ افغان حکومت کو جگایا جائے، ان سے اپیل کی جائے، انہیں دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے سے روکا جائے مگر سفارتی، انتباہی اور عملی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ انہوں نے حکومتی وزرائ، فوجی افسران، سفارتی چینلز اور بارڈر سیکیورٹی ٹیم کی کوششوں پر مشتمل اعداد و شمار پڑھ کر بھی سنائے۔ لیکن افسوس کا اظہار کیا کہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود افغان حکومت نے ایک بار بھی ہماری درخواست پر کان نہیں دھرے۔ بلکہ حال ہی میں سب سے آخری سفارتی کوشش سعودی عرب کا ذکر کیا کہ دوست ملک نے پاکستان اور افغانستان کو مذاکرات کی ٹیبل پر بٹھایا، سب باتیں طے پا گئیں تو افغانستان نے کہا کہ ٹی ٹی پی کا نام اس معاہدے سے نکال دیا جائے۔ سعودی نمائندے حیرت سے ہکا بکا رہ گئے اور پکار اٹھے: اگر فساد کی جڑ کا نام ہی معاہدے سے نکال دیں تو پھر اس پورے دن کی بیٹھک کا کیا مقصد ہوا؟
انہوں نے پاکستان کو درپیش معاشی چیلنج کا بھی ذکر کیا کہ آپریشن بنیان مرصوص کے بعد الحمدللہ اقوام عالم میں ہمیں وہ مقام ملا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا، اب ہمیں معیشت پر فوکس کرنا ہوگا۔ اپنی قوم کو وہ علوم و فنون سکھانا ہوں گے جن کے ذریعے دنیا میں غلبہ ملتا ہے۔ وہ علوم و فنون جو ہمارا دشمن سیکھ کر ہمارے ملکوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔ وزیر اعظم جناب شہباز شریف صاحب نے بھی آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کا ذکر کیا اور اس پر زور دیا کہ اب ہمیں معیشت بہتر کرنا ہوگی۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑوانا ہوگی، اب مزید ہم قرضوں پر گزار نہیں کر سکتے اور اس کے لیے کاروبار کو بڑھانے، پھیلانے اور نئے بزنسز شروع کرنا ہوں گے۔ انہوں نے علمائے کرام سے اپیل کی کہ آپ کے پاس جو تاجر بھی آئے اسے کہیں کہ اپنا کاروبار کو بڑھاؤ اور حکومت کو ٹیکس بھی دو۔
کانفرنس میں شرکت سے ادراک ہوا کہ ملکی قیادت اس وقت کس رخ پر سوچ رہی ہے اور مستقبل میں پاکستان کی پالیسیاں کیا رخ اختیار کریں گی۔ ایسی مجالس ناگزیر ہیں تاکہ افواہیں دم توڑ سکیں اور سطحیت، جذباتیت کے بجائے علم وآگہی فروغ پائے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کانفرنس میں دو پیش آنے والے چند ناروا اور نامناسب پہلوؤں کا بھی ذکر کر دیا جائے۔ سب سے پہلی بات جس نے بارہا ضمیر کو کچوکے لگائے اور دیکھ دیکھ کر سر شرم سے جھکتا رہا، وہ جناب فیلڈ مارشل صاحب کی تقریر کے ہر جملے پر بے ہنگم نعرے بازی، پھر ہر ہر مسلک کی ترجمانی کرنے والے نعروں کی تکرار اور تحمل، شائستگی اور علمی وقار کی کمی تھی۔ یہاں تک بات پہنچی کہ جناب فیلڈ مارشل کو خود منع کرنا پڑا۔ دوسرا پہلو جو سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا وہ دونوں حضرات کی تقاریر کے بعد اختیار کیا جانے والا سطحی، جذباتی اور لاابالی طرز عمل تھا۔ تین ہزار سے زائد افراد ایک جگہ جمع ہیں، ان میں سوال پوچھنے کے لیے کئی مائک پھیلائے گئے تھے۔ مگر بدقسمتی سے جن تک مائک نہیں پہنچے وہ ہر قسم کے نظم و ضبط سے عاری ہوکر اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور مختلف کونوں کھدروں میں شور شرابا مچا کر پورے ہال کو مچھلی بازار بنا دیا۔ کچھ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ حضرات تھے اور کچھ اپنے اپنے پیغامات پہنچانے کے لیے اتنے بے تاب کہ ان تک مائیک نہیں پہنچا تو انہوں نے گلے پھاڑ پھاڑ کر بولنا شروع کر دیا۔ یہ کسی بھی مہذب اور تعلیم یافتہ گروہ کی نمائندگی ہرگز نہیں تھی، نہ ہی یہ طرز عمل ایسا تھا جس سے کوئی عام شخص بھی متاثر ہو یا اسے احقاق حق اور ابطال باطل کا طریقہ سمجھا جائے۔ یہ منظر اتنا تکلیف دہ تھا کہ اس سلسلے کو جلد از جلد منقطع کر دینا ہی مناسب تھا اور ہوا بھی یہی۔ اور میں یہ سوچتا رہ گیا کہ علمائے کرام کے اس طرز عمل کو دیکھ کر کون دین کی طرف راغب ہوگا؟ کیا دعوت نبوی کا یہی اسلوب تھا؟ کیا دین کے داعیوں کے اخلاق و طرز عمل ایسے ہوتے ہیں؟
چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا ماند مسلمانی
یہ کچھ اور نہ بھی ہوتا تو علی الاعلان وزیر اعظم اور آرمی چیف کی علی الاعلان اہانت تھی، جس کے بارے میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”سلاطین اسلام کی علی الاعلان اہانت میں ضرر ہے جمہور کا۔ ہیبت نکلنے سے فتن پھیلتے ہیں، اس لیے سلاطین اسلام کا احترام کرنا چاہیے۔ (انفاس عیسی) اسی لیے حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا تھا: جس کے دل میں آئے، وہ حکمران کو نصیحت کرنے نہ چل پڑے، بلکہ ایسے عالم دین کو نصیحت کرنی چاہیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مطلب سمجھتا ہو۔ جس کام کا حکم دینا ہے، اسے نرمی سے کہہ سکتا ہو۔ جس کام سے منع کرنا ہے، اسے بھی نرمی سے بتا سکتا ہو۔ جس کا حکم دے رہا ہے، اس میں انصاف سے کام لے۔ جس کام سے منع کرنا ہے، اس میں بھی انصاف سے کام لے، حد سے تجاوز نہ کرے۔” (حلیة الاولیائ)

