استحکام کے لیے دفاعی قوت اور عدل ضروری ہیں

اطلاعات کے مطابق ایران کی میزبانی میں افغانستان کی صورت حال پر منعقد ہونے والے علاقائی ممالک کے ایک اہم اجلاس میں شریک نمائندوں نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا پھیلاؤ تمام ممالک کے استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔ پاکستان کے نمائندہ خصوصی کے مطابق اس خطرے کا تدارک اسی صورت ممکن ہے کہ افغان عبوری حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے استعمال سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے بصورتِ دیگر علاقائی ممالک کو ایسے اقدامات کی جانب توجہ دینا ہوگی جو افغان عبوری حکومت کو قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے پر مجبور کر سکیں۔ ایران میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں طالبان حکومت کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن ان کی جانب سے اجلاس میں کوئی نمائندہ شریک نہ ہوا۔ اس اجلاس میں عدمِ شرکت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان انتظامیہ علاقائی ممالک کے ساتھ تعاون میں سنجیدہ نہیں ہے جن کا سب سے بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانے اور تزویراتی پشت پناہی رکھنے والی دہشت گرد تنظیموں بشمول ٹی ٹی پی، بی ایل اے و دیگر کی امن مخالف سرگرمیوں پر قابو پایا جائے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ طالبان انتظامیہ کو عالمی برادری اور پڑوسی ممالک کے مطالبات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد گروہوں کی دراندازی کا تسلسل جاری ہے اور پاکستانی فورسز مسلسل انھیں شکار کر رہی ہیں۔

پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال بھارت اور مبینہ طورپر اس کی معاشی شراکت دار بعض عرب ریاستوں کے ایما پر ہو رہا ہے۔ عالمی میڈیا میں بھی اس بات کی تصدیق کی جا رہی ہے کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے دہشت گرد گروہ افغانستان ہی سے پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ روس اور دیگر علاقائی ممالک کے نمائندے بھی اس حقیقت کو قبول کر چکے ہیں کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی پشت پناہ ہے اور یہ دہشت گردی پورے خطے کے لیے سنگین صورت حال پیدا کر سکتی ہے۔ علاقائی ممالک کی اس سطح پر ناراضگی اور مخالفت کسی بھی ریاست کے لیے سفارتی، دفاعی اور معاشی حوالوں سے خطرے کا الارم ہو سکتی ہے لیکن بھارتی پشت پناہی اور بعض عرب ریاستوں کی حمایت نیز امریکی ڈالروں کی مسلسل فراہمی کی وجہ سے طالبان رجیم کے کانوں پر شاید جوں تک نہیں رینگ رہی۔ وہ اس معاملے کی گہرائی کا اندازہ لگانے میں غلطی کر رہے ہیں یا ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کا شکار ہیں۔

علاقائی صورت حال سے آگاہ تمام دفاعی، سیاسی اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں کے لیے پاکستان کے سوا کوئی دوسری تجارتی راہ سودمند نہیں لیکن طالبان رجیم نے مکمل بے اعتنائی کے ساتھ انھیں حکم دے دیا ہے کہ وہ پاکستان کے سوا متبادل راستے اختیار کریں جو سرِدست موجود نہیں ہیں۔ افغانستان میں اس وقت دواؤں کی گرانی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ برآمدات کا سلسلہ ٹھپ ہو چکا ہے۔ بے روزگاری کے ساتھ بدامنی کے خدشات تقویت پکڑ رہے ہیں۔ ا ن حالات میں مودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبان رجیم کے پاس بھی پاکستان کی مخالفت کے سوا مقبولیت حاصل کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ دکھائی نہیں دیتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت افغان معیشت کا تمام تر دار و مدار ان ڈالروں پر ہے جوکہ امداد یا کسی بھی دوسری مد میں ماہانہ چالیس سے پچاس ارب روپے کی صورت میں باہر سے آ رہے ہیں۔ اگر یہ امداد بند ہوگئی تو طالبان رجیم ایک ماہ بھی اپنے قدموں پر قائم نہ رہ پائے گی۔ دوسری جانب اطلاعات یہ ہیں کہ طالبان مخالف سیاسی و عسکری دھڑے باہمی اختلافات کو بھلا کر ایک مرتبہ پھر متحد ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں کہا جا رہا ہے کہ افغانستان کو ایک متفقہ آئین فراہم کرنے، سیاسی سرگرمیوں کی بحالی، خواتین کے لیے تعلیم اور روزگار کے بندوبست اور دہشت گرد گروہوں کی بالادستی سے عوام کو نجات دلانے کے لیے تمام تاجک، ازبک، ہزارہ، قوم پرست پشتون اور دیگر جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے ملک گیر مہم چلائی جائے گی جس کے بعد طالبان سے نجات کے لیے قوت کے استعمال کا آغاز کیا جائے گا۔ اس حوالے سے افغانستان میں مسلح جھڑپوں اور طالبان پر حملوں کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ یہی وہی صورت حال ہے جس کے بارے میں پاکستان کے جید علمائے کرام نے طالبان رجیم کو بارہا متنبہ کیا تھا۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی جیسے اسلامی شریعت اور فقہ کے ماہر نے طالبان رجیم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی ترجیحات میں افغان عوام کے حقیقی مسائل کے حل کو سرفہرست رکھیں اور ملک کے لیے ایک متفقہ اسلامی آئین تیار کریں جس کے لیے پاکستان کے علمائے کرام ان کی مکمل معاونت اور رہنمائی کے لیے تیار ہوں گے تاہم مجتہد فیہ مسائل میں تعصب، ہٹ دھرمی اور انا کی وجہ سے ایسے صائب مشوروں کو قبول نہیں کیا گیا۔ اس کی بجائے بھارت کی پشت پناہی اور اس کے ساتھ اقتصادی و دفاعی شراکت داری کو نجانے کس شرعی تقاضے کے تحت ملک کا اولین مفاد قرار دے کر ایسی پالیسیاں وضع کی گئیں جن کی وجہ سے افغانستان آج بھی ایک ریاست کی بجائے ایک خود سر تنظیم کا مرکز دکھائی دے رہا ہے جس کی سرگرمیاں علی الاتفاق دہشت گردی سے تعبیر کی جا رہی ہیں اور اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ ہی عالمی سطح پر دہشت گردی کے استعارے میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

افغانستان سے ملنے والی اطلاعات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ طالبان رجیم سرکاری سطح پر لویہ افغانستان کے نعرے کو ایک قومی بیانیے کی شکل دینے کی کوشش کر رہی ہے جوکہ دراصل بھارت کی علاقائی بالادستی اور توسیعی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اس بیانیے اور ایسی تمام ناپاک سازشوں اور فتنۂ خوارج کی سفلی خواہشات کے مقابلے میں پاکستان کی مسلح افواج ہمہ وقت مستعد ہیں۔ پاک افواج کے سپہ سالار فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے فوجی مشقوں کے ایک معائنے سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ افواج پاکستان تمام تقسیم پسند قوتوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان علاقائی امن اور استحکام کا حامی ہے۔ فتنے اور جارحیت سے ملک اور عوام کو محفوظ رکھنا شریعت کا مطالبہ ہے۔ داخلی امن کے لیے عدل کا نفاذ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان سمیت تمام مسلم ممالک کو داخلی امن کے لیے فیصلوں میں عدل کو ترجیح دینی چاہیے۔ وعدوں کی خلاف ورزی، ڈالروں کے حصول کے لیے مسلم ممالک کے خلاف پراکسی وار کا حصہ بننا اور تشدد عدل کے خلاف ہے۔ طالبان کو پڑوسی ممالک میں دہشت گردی، تشدد اور جارحیت کی پشت پناہی سے باز آ جانا چاہیے۔