آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہے

منگل کے روز نیویارک میں فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ میزبانی اور قیادت میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس نے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے ”دو ریاستی حل” کی ضرورت پر عالمی اتفاق رائے کو نئی تقویت بخشی ہے۔ سات صفحات پر مشتمل اعلامیہ، جو سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والی اس کانفرنس کے اختتام پر جاری کیا گیا، اس بات کا اظہار ہے کہ عالمی برادری فلسطین کے مسئلے کے حل کیلئے کسی نہ کسی راہ پر آگے بڑھنے کیلئے پرعزم ہے اور یہ عزم امریکا اور اسرائیل کے باہمی اتحاد و اتفاق اور مسئلہ فلسطین کے حل کی کسی بھی کوشش کو سبوتاژ کرنے کی روش اور مسئلہ فلسطین کو دبانے کے فسطائیت آمیز جتن کے باوجود ایک بار پھر پوری شدت سے ظاہر ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے زیر سایہ ہونے والی اس بین الاقوامی کانفرنس کے اعلامیے میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ جنگ، جارحیت، قبضے اور جبری نقل مکانی سے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ساتھ ہی اعلامیے میں اس عہد و قرار کا ببانگ دہل اقرار بھی کیا گیا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہی اس دیرینہ مسئلے کا پائیدار اور منصفانہ حل ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کانفرنس کے شرکاء نے اس واضح، دو ٹوک، منصفانہ اور جرات مندانہ موقف کو صرف بیان کی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ اگلے پندرہ ماہ میں اس مجوزہ حل کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اقدامات کرنے کا عہد بھی کیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ اس حوالے سے خاصا عملی اقدام ہے کہ یہاں ماضی کی طرح محض نشستند، گفتند و برخاستند پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے موقف کو عمل میں ڈھالنے کی طرف قدم بڑھانے کا لائحہ عمل بھی دیا گیا ہے جو امید افزا ہے۔ کانفرنس کے دوران اور جاری اعلامیہ میں فلسطینیوں کے جبری انخلا، تشدد اور اشتعال انگیزی کی مذمت کی گئی اور اسرائیل سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کیلئے علانیہ عہد کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل سات اکتوبر 2023کی حماس کی کارروائی کی آڑ میں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے غزہ پر وحشیانہ انداز میں حملہ آور ہے، جس میں غیر رسمی اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریباً ایک لاکھ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، لاکھوں زخمی اور دربدرہیں اور ایک مکمل انسانی بحران پوری شدت اور سنگینی سے غزہ کی سرزمین پر جاری ہے۔ بدقسمتی سے امریکا اس ساری جاری تباہی کے دوران اسرائیل کے حق میں ڈھال بنا کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہو یا انسانی حقوق کے ادارے، جہاں کہیں بھی فلسطینیوں کیلئے انصاف اور جنگ بندی کی آواز بلند ہوتی ہے، امریکا اپنی ویٹو پاور اور عالمی اثر رسوخ کے ذریعے اسے خاموش کر دیتا ہے۔یہ طرز عمل عالمی ضمیر، جمہوریت، انسانیت اور بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ ایک کھلا مذاق ہے۔ یہ کہاں کی امن پسندی ہے کہ پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ اسرائیل ظلم کر رہا ہے اور ایک طاقتور ملک اس ظلم کو ”حقِ دفاع” کہہ کر تحفظ کی چھتری فراہم کرے؟ یہ کیسا اور کہاں کا حق دفاع ہے کہ نہتے، بھوکے، محصور اور بے سروسامان انسان گاجر مولی کی طرح کاٹے جائیں؟ کیا غزہ کے بھوک پیاس سے بلکتے ہزاروں بچوں کو قتل کرنا دفاع ہے؟ آخر ان معصوم بچوں کا قتل کس قانونی اور اخلاقی اصول کے تحت جائز اور قابل دفاع ہے؟ کیا امریکا اور اس کے فیصلہ سازوں کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہے؟ لگتا ایسا ہے کہ موجودہ امریکی ارباب اختیار کے اندر اپنے ان لٹیرے اور قابض آباء و اجداد کی بدروح داخل ہوگئی ہے جو یورپ کے مختلف حصوں سے امریکا آکر یہاں کے اصل باشندوں ”ریڈ انڈینز” کو ایسے ہی قتل، قبضوں اور جبر سے پسپا کرکے ان کی سرزمین کے مالک بنے، جیسے آج دنیا بھر سے آئے بھگوڑے صہیونی مارکاٹ اور جبر کے ذریعے فرزندانِ زمین فلسطینیوں کی زمینوں پر جبراً مالک بنے ہوئے ہیں۔ یقینا کوئی سلیم الفطرت اور انصاف پسند انسان اور قوم غزہ میں جاری انسانی تاریخ کے اس بدترین ظلم کی حمایت نہیں کرسکتا۔ قابض کو قابض اور جارح کو ایک جارح ہی سپورٹ کر سکتا ہے اور امریکی اسرائیل کی مسلسل پشت پناہی سے بتلا رہے ہیں کہ وہ کیا ہیں اور کہاں کھڑے ہیں۔

اسرائیل کا نام نہاد دفاع درحقیقت ایک استبدادی جارحیت ہے، جسے ایک قابض قوت نے اپنے جرائم چھپانے کیلئے پینٹ کر رکھا ہے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب اور فرانس کا فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف بڑھنا ایک جرات مندانہ اور امید افزا قدم ہے۔ یہ صرف فلسطین سے ہمدردی نہیں بلکہ عالمی ضمیر کی بیداری اور انسانیت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان ہے۔ جب امریکا اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے اخلاقیات، انسانیت اور انصاف کو روند رہا ہے، فرانس اور سعودی عرب کا اس کے برعکس موقف اپنانا عالمی سیاست میں ایک نیا رخ متعین کرنے کا بھی مظہر ہے اور اس سے یہ امکان بھی ظہور پذیر ہوا ہے کہ دنیا امریکا کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔اسرائیل مسلسل دو ریاستی حل کو سبوتاژ کر رہا ہے۔ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر، بیت المقدس کا الحاق، غزہ کی مسلسل ناکا بندی اور مسلسل جارحیت اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ فلسطینی اپنی زمین، شناخت اور وجود سے مکمل طور پر محروم ہو جائیں۔

اسرائیل کو ایک ذمہ دار ریاست تبھی تسلیم کیا جا سکتا ہے جب وہ اپنی حدود میں رہے، دنیا کی دیگر قومی ریاستوں کی طرح بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پابندی کرے اور انسانی حقوق تسلیم کرے۔ ورنہ ایک ایسی نام نہاد ریاست جو سات دہائیوں سے مسلسل اپنی سرحدیں بڑھا رہی ہو، انسانی جانوں کی پروا نہ کرتی ہو اور عالمی فیصلوں کو ٹھکرا کر صرف طاقت کے بل پر اپنا وجود منوانا چاہتی ہو، کسی مہذب دنیا میں ریاست کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتی۔اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کو اصول و ضوابط کا پابند بنایا جائے اور اس وقت تک اسے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت اور ریاست کا قانونی درجہ نہ دیا جائے جب تک وہ فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کر کے بین الاقوامی معاہدات کا اقرار نہ کرے۔ ایک آزاد، خود مختار فلسطینی ریاست، جس کا دارالحکومت مکمل مقبوضہ بیت المقدس ہو، ہی اس خطے میں امن کی ضمانت بن سکتی ہے۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے اسرائیلی توسیع پسندی کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ فرانس، برطانیہ اور اٹلی اور دیگر یورپی ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کے موقف پر قائم رہیں اور ستمبر میں مجوزہ عالمی اجلاس میں فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کر کے انصاف کی ایک نئی بنیاد رکھیں۔ یہی اقدام عالمی امن کے لیے سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔