ملک کو امن و استحکام کی ضرورت ہے

وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان ایک جانب مسلسل قدرتی آفات کی زد میں ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات ملک کے مختلف حصوں میں غیر معمولی طوفانی بارشوں،سیلاب اور اس کے نتیجے میں املاک اور فصلوں کے نقصانات کی صورت میں سامنے آرہے ہیں اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے سلسلے میں ہمارے سارے انتظامات اور وسائل ناکافی ثابت ہورہے ہیں تو دوسری جانب اس وقت ملک کے کئی حصوں میں مختلف طبقات اور جماعتوں کی جانب سے احتجاج یا اس کی تیاریوں کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں جو کہ ہر محب وطن پاکستانی شہری کے لیے باعث تشویش امر ہے۔

چنانچہ ایک طرف اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 5اگست کو اپنے بانی کی رہائی کے لیے احتجاج کی تیاریاں جاری ہیں تو دوسری جانب سے مختلف ریاستی اداروں کی جانب سے تحریک انصاف کے خلاف ایسے فیصلے بھی سامنے آرہے ہیں جو بعض مبصرین کے مطابق ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف نو مئی کے مقدمات سے متعلق حالیہ عدالتی فیصلوں کے بعد اب الیکشن کمیشن نے بھی راست اقدام کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری،پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر احمدبھچر اور رکن قومی اسمبلی احمد چٹھہ کو نااہل قرار دے کر ان کی نشستیں خالی قرار دی ہیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی ا ئی کے ایک رکن قومی اسمبلی عبد اللطیف کو بھی عدالت نو مئی کے کیس میں قصور وار قرار دے چکی ہے جبکہ ایک نشست حالیہ دنوں پی ٹی آئی رہنما میاں اظہر کی وفات کی وجہ سے خالی ہوئی ہے۔ اب ان نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے اور یقینی طور پر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان زور دار معرکہ ہوگا۔دونوں فریق ٩ مئی سے متعلق اپنے اپنے بیانیے کو درست ثابت کرنے کے لیے ان نشستوں پر جیت یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔ موجودہ حالات میں جبکہ مہنگائی قابو میں نہیں ہے اور عوام حکومتی کار کردگی سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے، حکومت کے لیے ان نشستوں کو نکالنا شاید زیادہ آسان نہ ہو۔دوسری جانب حکومتی اتحاد کی شکست کی صورت میں موجودہ سارا بندوبست ہی خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔ ملک کے سیاسی منظرنامے میں اگلے ایک دو ہفتے اہم ہوں گے۔پی ٹی آئی اپنے بانی قائد کی رہائی کے لیے احتجاج کرنا چاہتی ہے، احتجاج کرنا ہر پاکستان شہری کا حق ہے اور پی ٹی آئی کو بھی یہ حق دیا جانا چاہیے، حکومت کو احتجاج روکنے کے لیے غیر ضروری پھرتیوں کا مظاہرہ کرنے اور جلتی پر تیل ڈالنے والے اقدامات کرنے سے گریز کرنا چاہیے مگر دوسری جانب پی ٹی آئی کو بھی ماضی کے اپنے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرکے اپنے احتجاج کو پر امن اور آئین و قانون کے دائرے میں اندر رکھنے کا التزام کرنا ہوگا۔

ادھر بلوچستان میں حالات کچھ زیادہ پرسکون نہیں ہیں ۔ بلوچستان سے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ متعدد بلوچ تنظیمیں پہلے ہی اسلام آباد میں احتجاج کر رہی ہیں۔ اسے بد قسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت تمام تر اعلانات و اقدامات کے باوجود تاحال بلوچستان کے عوام کے دل نہیں جیت سکی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بلوچستان کا مسئلہ گمبھیر سے گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندی اور مرکز گریزی کے رجحانات کو عالمی وعلاقائی پاکستان دشمن قوتوں کی حمایت حاصل ہے اور جیسے جیسے سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار بڑھنے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں، وہاں وفاق پاکستان،افواج پاکستان اور سی پیک منصوبوں کے خلاف سرگرمیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اس کے مقابلے میں کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے بلوچ حقوق کے نام پر شورش پسندی روکنے کے لیے بلوچستان کے عوام کے حقیقی مسائل کے حل پر کتنی توجہ دی ہے؟ خودگوادر جوکہ سی پیک کا مرکز اور پاکستان کا معاشی مستقبل کہلاتا ہے،وہاں کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات مثلاً بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟گوادر کے عوام گزشتہ کئی سالوں سے مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، ان کے بہت سے مطالبات بالکل جینوین اور حقیقی ہیں اور صوبائی حکومت دو تین بار ان مطالبات کے حل کا وعدہ کرچکی ہے مگر بتایا جاتا ہے کہ درحقیقت ان میں سے کسی مطالبے پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہوا۔ کیا یہ مطالبات اس وقت مانے جائیں گے جب لوگ شہر اقتدار اسلام آباد میں آکر ہنگامہ برپا کردیں گے؟

تیسری جانب خیبرپختونخوا کے متعدد علاقوں میں بھی حالات تسلی بخش نہیں۔ وادی تیراہ میں حالیہ دنوں پیش آنے افسوس ناک واقعے نے ہمارے سیکیورٹی اداروںکے لیے نئے چیلنجز کی نشاندہی کی ہے۔ اس وقت خیبر پختونخوا کے کئی علاقے فتنہ خوارج کی سرگرمیوں کی زد میں ہیں اور المیہ یہ ہے کہ اس فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے قومی سلامتی کے ادارے اور صوبے کی حکومت ایک پیج پر نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔علاوہ ازیں ملک کو فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں جھونکنے کی سازشیں بھی اپنے عروج پر ہیں۔ انہی سازشوں کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے اربعین کے موقع پر زمینی راستے سے ایران و عراق جانے پر پابندی لگائی تو ہمارے ہاں کے کچھ مخصوص حلقوں نے اس پر واویلا شروع کردیا ۔ گزشتہ برس پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی ایک قرار داد میں یہ ہوشربا انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان سے زیارات کے نام پر عراق جانے والے پچاس ہزار افراد لاپتا ہوچکے ہیں۔سیکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے بعض تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ افراد عراق اور شام میں سرگرم بعض فرقہ وارانہ تنظیموں میں شامل ہوسکتے ہیں اور ان سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کرکے پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی پھیلانے کے ایجنڈے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ماضی میںبہت سے ایسے افراد کے پاکستان سے باہر جاکر شام اور عراق کی خانہ جنگی میں حصہ لینے اور پاکستان واپس آکر فرقہ وارانہ وارداتوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات ریکارڈ میں آچکی ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کو ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز پاکستان کو اس وقت امن واستحکام کی سخت ضرورت ہے۔