غزہ میں مزید قتل عام کا امریکی و اسرائیلی منصوبہ

قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کے لیے دوحہ میں جاری مذاکرات ختم کردیے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر حماس کو ختم کرنے کے نام پر غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے شیطانی عزائم کا اظہار کیا ہے اور اسرائیلی وزرا اب غزہ کی پوری آبادی کا صفایا کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ادھراسرائیلی کابینہ نے مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ طور پر ضم کرنے کی قرار داد منظور کی ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ اس وقت اسرائیل کو امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے ،اس لیے یہ بہترین موقع ہے کہ غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کرلیا جائے۔

اس سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جوڑی نے فلسطینی ریاست کو مکمل طور پر دنیا کے نقشے سے مٹانے کا تہیہ کرلیا ہے اور انہیں اس بات کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے کہ اس بارے میں بین الاقوامی قانون کیا کہتا ہے یا عالمی برادری اس کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔فرانس اور برطانیہ نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بار پھر فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے اور غزہ کے لاکھوں لوگوں کو بھوکا مارنے کے امریکی و اسرائیلی منصوبے کی مذمت کی ہے تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل کا ہاتھ روکنے اور غزہ تک امداد پہنچانے کے لیے کوئی عملی اقدام تاحال سامنے نہیں آیا اور اس سے بھی تکلیف دہ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ غزہ کے لاکھوں مسلمان بھائیوں اور بچوں کو بھوکامارنے کے صہیونی منصوبے کے خوفناک مرحلے میں داخل ہوجانے کے باوجود ستاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر بدستورسکوت مرگ کی کیفیت طاری ہے ۔غزہ کی انتہائی تشویشناک صورت حال پر مغربی ممالک کے غیر مسلم عوام تو سڑکوں پر آکر احتجاج کر رہے ہیں جبکہ دو ارب مسلمان بے حسی یا پھر بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

عالمی ذرائع ابلاغ کی سرخیاں چیخ رہی ہیں کہ غزہ میں اسرائیل کے جاری محاصرے اور حملوں کے باعث انسانی بحران مزیدشدت اختیار کرگیا، غذائی قلت سے روزانہ اموات ہونے لگیں۔ اقوام متحدہ، بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اور خود مقامی افراد اس صورتحال کو ”انسانی پیدا کردہ قحط” قرار دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ میں لوگ نہ زندہ ہیں نہ مردہ بلکہ ”چلتی پھرتی لاشیں” بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک 100 سے زاید افراد صرف بھوک کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرے تاکہ خوراک، دوا اور پینے کا پانی بروقت غزہ میں پہنچ سکے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، مقامی شہری ہانا المدہون نے بتایا کہ مارکیٹوں میں کھانا دستیاب نہیں اور اگر ہو بھی تو وہ اتنا مہنگا ہے کہ لوگ سونا اور ذاتی سامان بیچ کر آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ ایک ماں نے بتایا کہ اس نے بچوں کو کچرے کے ڈھیر سے کھانے کے ٹکڑے تلاش کرتے دیکھا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ میں بھوک کی ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور یہ ”انسانوں کی بنائی ہوئی قحط” ہے۔ یونیسف نے انکشاف کیا ہے کہ غذائی قلت سے شہید ہونے والوں میں 80فیصد بچے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں کے دوران 5 ہزار سے زاید کمزور اور بیمار بچے ہسپتال داخل کرائے جا چکے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 20 لاکھ کی آبادی خطرے میں ہے اور بچوں کے لیے دودھ جیسی بنیادی اشیاء کی بھی اجازت نہیں۔

ان حالات میں حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو نیند کیسے آجاتی ہے اوروہ کس طرح اپنی عیاشیوں اور اللوںتللوں میں منہمک رہتے ہیں؟ یہ امر نہایت شرم ناک ہے کہ تاریخ کے اس نازک ترین کمحے میں دنیا کی واحد ایٹمی قوت کے حامل اسلامی ملک پاکستان کے وزیر خارجہ امریکا جاتے ہیں اور امریکا کے کٹر صہیونی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے کنج لب سے غزہ کے المیے سے متعلق دو لفظ بھی نہیں ادا نہیں ہوتے۔

مسلم حکمرانوں کی یہی بے حسی اور لاتعلقی امریکا اور اسرائیل کو غزہ کے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھنے اور انہیںتمام بین الاقوامی اصولوں، مسلمہ اور طے شدہ جنگی قوانین کو پاوں تلے روند کر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر ابھار رہی ہے۔ اب پانی سر سے اونچا ہوتا جارہا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب یہ امر د نیا کے ہر کلمہ گو پر فرض عین کے درجے میں ہے کہ وہ غزہ کے بچوں کو مسلط شدہ بھوک سے بچانے کے لیے جوکچھ کرسکتا ہے کرے۔ مسلمان عوام کو اپنے حکمرانوں کو جھنجھوڑنے اور کچھ غیرت دلانے کے لیے کم از کم پر امن احتجاج کے لیے تو میدان میں آنا چاہیے اورفلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے صہیونی منصوبے کی ہر سطح پر اور ہر ممکن طریقے سے مزاحمت ہونی چاہیے۔

کیا مافیا عناصر حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں؟

وفاقی حکومت کے ماتحت ادارۂ شماریات نے ملک بھر میں ہفتہ وار مہنگائی کے حوالے سے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حالیہ ہفتہ ملک میں مہنگائی کی شرح 4.07 فیصد بڑھ گئی جبکہ ہفتہ وار مہنگائی کی سالانہ مجموعی شرح 2.22 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ چینی کی قیمت میں کمی ہوئی ہے مگر میڈیا رپورٹوں کے مطابق ملک بھر میں تاحال چینی کا بحران جاری ہے اور کئی شہروں میں اب بھی چینی 200 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ دنوں شوگر ملز مالکان سے مذاکرات کر کے چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو اور ریٹیل 172 روپے فی کلو مقرر کی تھی اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا تھا تاہم ملز مالکان نے حکومتی ریٹ پر ریٹیلرز کو چینی فراہم کرنے سے انکار کر دیا جس کے باعث چینی کی قیمت کم نہ ہو سکی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث مافیاؤں کے آگے بے بس ہے ، شاید اس وجہ سے بہت سے مافیا عناصر بالخصوص شوگر مافیا کے سرغنہ خود حکومتی صفوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی عوام جب تک ان مافیاؤں کے خلاف متحد نہیں ہوتے، کبھی چینی اور کبھی آٹے کی مہنگائی ان کا مقدر بنی رہے گی۔