شام عالمی جنگ کا مرکز

ایک حدیث میں ارشاد ہے :
اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور میری (اُمت میں سے) کچھ لوگوں کی (حق پر ہونے کی وجہ سے) مدد کی جاتی رہے گی اور انہیں کسی کے ترک تعاون کی کوئی پروا نہ ہوگی، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (مسند احمد ج ١٣)

یہ شام ہے، انبیاء کی سرزمین۔ اگر اس میں خیر باقی نہ رہی تو دنیا میں خیر کی کوئی تمنا باقی نہ رہے گی۔ ہتھیاروں کے عالمی سوداگر ایک بار پھر جنگ کی بھٹی بھڑکانا چاہتے ہیں۔ نئی امریکی حکومت نے مبہم اعلانات کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ شام، افغانستان اور دیگر مسلم خطوں سے متعلق ان کی جنگی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکی افواج کا شام میں داخل ہونے کا منصوبہ زیرِ غور ہے، تاکہ گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کی جا سکیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ شام ہی ایک ایسی بڑی جنگ کا مرکز ہوگا کہ اس کی تباہی کے اثرات سے فارس اور روم بھی جل اٹھیں گے۔ حالیہ دنوں جنگ کے سائے جس طرح شام کی بڑھ رہے ہیں، اس میں ترکی کے ردعمل کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں کہ غزہ جل رہا ہے، قحط سے مسلمان مر رہے ہیں، جبکہ اقوامِ متحدہ، عرب لیگ، او آئی سی، فیشن شوز، کلچرل پروگراموں اور فضول مشغولیات میں مصروف ہیں۔ یہ آگ عرب ممالک کے نوجوانوں کو اپنے حکمرانوں سے مزید دور کرے گی، اور پھر کیا ہوگا؟ یہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ نابینا اور بے حس لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔

مسلم حکمرانوں سمیت دنیا کی خاموشی، انسانیت کے نام پر ایک بدترین دھبا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ شام، جو انبیاء کی سرزمین ہے، آخری معرکے کا میدان بھی ہے، مگر اس سے پہلے یہاں صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ ہر طرف بچوں اور خواتین کی چیخ و پکار ہے، اقوامِ متحدہ کی خاموشی، انسانی حقوق کے اداروں کی بے حسی، اور او آئی سی کا مجرمانہ سکوت جبکہ دوسری طرف غزہ مکمل طور پر جل چکا ہے، تباہی کے آخری دہانے پر ہے۔ امتِ مسلمہ بدستور غفلت میں ہے۔ فلسطین، کشمیر، اور اب شام، ہر طرف تباہی کا منظر نامہ ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے، مگر اسلامی دنیا کے حکمران ابھی بھی حرکت میں آنے کو تیار نہیں۔ مشرقی غوطہ کی تباہی پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی، شامی بچوں کی خون آلود آنکھیں، چیختے جسم، اور امت کی بے حسی، ان سب پر آسمان بھی نوحہ کناں ہے۔

ادھر پاکستان میں دانش فروش طبقہ میرے مسلمان شامی بھائیوں پر ہونے والے مظالم کو ان کا ذاتی مسئلہ قرار دے کر قوم کو گمراہ کر رہا ہے، جبکہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں میرے بھائی کہا ہے۔ یہ ایک عالمی پراکسی وار ہے اور اس کا ایک بڑا ہدف پاکستان بھی ہے۔ یہ بے دین، بے ضمیر طبقہ ایجنڈا سیٹنگ کے تحت اسلامی شعائر کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ شام کی مظلوم قوم پر پہلے بشارالاسد نے بدترین مظالم کیے، اب ایران اور اسرائیل کی بیرونی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ترکی نے اگرچہ پہلی بار واضح ردعمل دیا ہے، مگر یہ ردعمل اسلامی بھائی چارے سے زیادہ اپنے مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔

گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کو تقسیم کیا جائے۔ کرد قبیلے کے علاقے شام، عراق اور ترکی کے درمیان منقسم ہیں اور تینوں نے ان کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ اگر شام میں کرد الگ ہوتے ہیں، تو ترکی کے کرد بھی اٹھ کھڑے ہوں گے، جنہیں شامی کرد اور دیگر خفیہ قوتیں سہارا دیں گی۔ عراقی کرد پہلے ہی نیم خودمختار حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی کرد اکائی تینوں ملکوں کی سرحدوں پر موجود ہے اور ان کے درمیان لکیر کسی بھی وقت مٹ سکتی ہے۔ آزاد کردستان کا خواب تیزی سے حقیقت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ وہ نازک صورت حال ہے جس نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی کو بھی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے، اور آنے والے دنوں میں اس کی شدت مزید بڑھ سکتی ہے مگر چند ممالک اپنے ذاتی مفادات کے تحت آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف مغرب اور اس کا ناجائز بچہ اسرائیل پسِ پردہ ڈوریاں ہلا رہا ہے، مختلف گروہوں سے خفیہ روابط قائم ہیں، اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب ہو سکتا ہے (اللہ کرے ایسا نہ ہو۔) اگر ایسا ہوا تو چند برسوں میں کئی چھوٹے چھوٹے مسلم ممالک وجود میں آئیں گے اور اسرائیل کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہوگا (اب بھی نہیں ہے۔) گریٹر اسرائیل کے فری میسن منصوبے میں خیبر بھی شامل ہے، جو سعودی عرب میں واقع ہے، وہی خیبر، جہاں سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا تھا۔ شام کی تباہی، دنیا کی تباہی کی بنیاد بن چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگ کب اور کس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے۔ طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ بس سوال یہ ہے کہ اس سے کون محفوظ رہے گا؟ شام کی بربادی، انسانیت کی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ اگر کسی کو ادراک ہے، تو وہ ضرور اس آگ کی تپش کو محسوس کر رہا ہے۔ اللہ امت مسلمہ پر رحم فرمائے، آمین۔