Letter To Editor

ایک عجیب سلسلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بچوں کا اسلام میں اپنی ابتدا سے لے کر آج تک بے شمار سلسلے شروع ہوئے اور جنھیں الحمدللہ قبول عام حاصل ہوا۔ہر سلسلے میں شامل ہونے کے لیے قارئین کوشش کرتے، ان میں اپنا نام دیکھنے کو بے تاب ہوتے، لیکن ایک… جی ہاں ایک انوکھا سلسلہ ایسا بھی ہے جس میں نام نہ آنے کی دعا کیا کرتے۔ نام آجاتا تو اکثر قارئین برا مناتے۔

آپ حیران ہوں گے کہ بھلا ایسا کون سا سلسلہ ہوسکتا ہے؟
تو جناب!یہ سلسلہ ہے ’’ناقابل اشاعت‘‘ کاجسے نرم سے نرم الفاظ میں ’’اشاعت سے معذرت‘‘ کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ یہ سلسلہ ابتدا میں جناب اشتیاق احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اِس لیے شروع کیاتھاکہ وہ جو ہردوسرے خط میں قارئین کی طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ میری فلاں فلاں تحریرکاکیاہوا،شائع ہوگی یانہیں،ہوگی توکب؟

’آمنے سامنے‘‘ کابڑاحصہ ایسے ہی سوال جواب میں خرچ ہوجاتاتھا،سو مرحوم نے سوچاکہ کیوں نہ ناقابلِ اشاعت مضامین کی فہرست لگادی جایاکرے، سو سلسلہ شروع کردیا گیا۔تحریروں کے نام کے ساتھ لکھنے والوں کے نام بھی چھپنے لگے اور پھر ایک ہنگامہ سا شروع ہوگیا۔

اس ہنگامے کی تفصیل لکھنے سے قبل ہم بچوں کا اسلام کی بہن خواتین کا اسلام میں اس سلسلے کا اپنا دلچسپ تجربہ لکھتے ہیں، کیونکہ آپ کے مدیر چاچو اللہ کے فضل سے خواتین کا اسلام کے بھی مدیر ہیں بلکہ وہاں پہلے سے ہیں اور الحمدللہ ہزاروں ماؤں خالاؤں کے بیٹے بھانجے اور لاکھوں بہنوں بچیوں کے بھائی چاچو ہیں، سو قصہ مختصر یہ کہ قریب تیرہ چودہ سال قبل خواتین کا اسلام میں یہی سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ہم نے وہاں لکھاری بہنوں سے پہلے یہ دریافت کیا تھا کہ کیاناقابل اشاعت تحریروالوں کے نام دیے جائیں یانہیں؟

جب تک ان کی رائے نہ آگئی، ہم نے تحریرکاعنوان اورمقام واضح کرنے پر اکتفا کیا،نام نہیں دیے۔خیر ہماری طرف سے اظہارِرائے کی دعوت کے جواب میں جوخطوط آئے ان میں قاریات نے تجویزدی کہ نام بھی ہونے چاہییں تاکہ یقینی طور پر پتا چلے کہ ہماری ہی تحریر ہے۔ بعض بچیوں نے نجانے کس موڈ میں یہ بھی کہاکہ چلوتحریرنہ سہی ہم ناقابل اشاعت میںاپنانام ہی دیکھ کرخوش ہوجائیں گے۔

تو جناب! ہم نے موصولہ آرا کے مطابق ناقابل اشاعت میںنام بھی شائع کرنے شروع کردیے۔ چنددنوںتک توخاموشی طاری رہی،مگرپھر وہاں بھی وہی ہنگامہ شروع ہوگیا۔

جی ہاں!اِس تبدیلی پرسخت تنقیدشروع ہوگئی،نام شائع ہونے کے خلاف رائے رکھنے والی قاریات جوپہلے خاموش رہی تھیں،اب ہمیں آڑے ہاتھوں لے رہی تھیںکہ آپ نے ہماری سبکی کردی۔ ان کاکہناتھاکہ اس سے بہترہے کہ آپ ناقابل اشاعت میں ہماراذکرہی نہ کریں۔

اور ہمیں یاد ہے کہ یہی سخت ردعمل بچوں کا اسلام میں جناب اشتیاق احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی پیش آیا تھا۔

اِس ردعمل کے بعدجناب اشتیاق احمد صاحب کا تو نہیں پتا لیکن ہم ضرور سرپکڑکر بیٹھ گئے، کیونکہ ہمارا ٹاکرا بہنوں سے تھاجو ہرگز بچوں سے کم خطرناک نہیں ہوتیں؟

اب صورت حال یہ تھی کہ سلسلہ تو شروع ہوہی گیا تھا، لکھنے والے کا نام نہیں دیتے تو یہ سلسلہ مفید نہیں رہتا، اور دیتے ہیں تو بہنیں بچیاں ناراض ہوتی ہیں،سوہماری کیفیت اس وقت کچھ ایسی تھی جس کے لیے کہاجاتاہے:’ آگے کنواں پیچھے کھائی‘۔

خاصے غوروخوض کے بعدیہی حل سمجھ میں آیا کہ سلسلہ بندکردیاجائے کہ نہ رہے گابانس نہ بجے گی بانسری،اس لیے ہم نے فی الفور وہ سلسلہ بند کردیا۔
مگراس کے بعدکیاہوا؟

وہی خطوط میں سوالات کی بھرمار کہ ہماری تحریرقابل اشاعت ہے یانہیں؟

یقین کیجیے اگرایسے ہرخط کوآمنے سامنے میں شامل کیاجائے اورہرخط کے نیچے جواب دیا جائے کہ ’’قابل اشاعت ہے، قابل اشاعت نہیں ہے، دوبارہ لکھیں، مزید محنت کریں‘‘ وغیرہ وغیرہ تونہ صرف آمنے سامنے کاپوراصفحہ اسی میں خرچ ہوجائے گا بلکہ آپ کے مدیر چاچو بھی جواب دیتے دیتے ’’خرچ‘‘ ہوجائیں گے۔
اس لیے بہتر یہی لگتا ہے کہ اچھی امیدرکھی جائے اور صبر جمیل کو اوڑھتے ہوئے انتظار کیا جائے۔ ویسے بھی انتظار اگر موت سے شدیدتر ہے تو کسی محبوب شخصیت کے انتظار میں ایک عجیب سی لذت بھی ہے۔

اور اپنی تحریر سے محبوب شے بھلا اور کیا ہوگی…؟
والسلام

مدیر مسئول