3 Dost

تین دوست

ڈاکٹر امین علی۔صوابی

ایک جنگل میں تین لنگوٹیا دوست بندر، کتا اور گینڈا رہتے تھے۔ وہ تینوں ایک ساتھ کھیلتے کودتے، دن کا بیشتر وقت ساتھ رہتے، حتیٰ کہ کھانا بھی ساتھ ہی کھاتے۔ بندر کیلے اور مونگ پھلیاں لے آتا، کتا ہڈیاں لے آتا جبکہ گینڈا گھاس اور کچھ پتے وغیرہ لے آتا۔ تینوں خوب مزے سے اپنا اپنا کھانا ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ وہ ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے، اور ایک دوسرے کی ہر کام میں مدد کرتے تھے۔ اگر جنگل میں بندر کو کہیں سے بھی ہڈی مل جاتی تو وہ اپنے دوست کتے کے لیے لے آتا، اگر کتے کا گزر کیلے یا کسی بھی پھل کے درخت کے پاس سے ہوتا تو وہاں سے اپنے دوست بندر کے لیے تحفے کے طور پر پھل لانا نہ بھولتا، اسی طرح اگر کہیں گینڈا تھک جاتا تو اس کے دونوں دوست جنگل کے کونے کونے سے ہر طرح کی گھاس اکھٹی کرکے لاتے، اور جو کچھ کھانے کا اس کا دل کرتا اُس کے سامنے پیش کرتے۔

ایک دن تینوں دوست جنگل میں پکنک منا رہے تھے۔ خوب کھانے پینے کے بعد وہ اپنے پسندیدہ کھیل کھیلنے میں لگ گئے۔ کھیل کود سے تھک ہار کر تینوں ہری بھری گھاس پر بیٹھ گئے اور گپ شپ کرنے لگے۔

اب ہوا یوں کہ وہ تینوں دوست تو خوب اٹھکیلیاں کررہے تھے جبکہ ان سے کچھ ہی دور جھاڑیوں کے پیچھے چھپا ہوا ایک بھوکا شیر ان تینوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اُن کے لذیذ گوشت کے تصور سے ہی اس کے منہ میں پانی آنے لگا اور رال ٹپکنے لگی تھی۔ ابھی وہ موقع کی تلاش میں تھا کہاچانک بندر کی تیز نگاہ شیر پر پڑ گئی، اس نے زور زور سے خخیانا شروع کردیا:
’’شیر شیر… بھاگو بھاگو!‘‘

چلاتا ہوابندر چھلانگ لگا کر درخت پر چڑھ گیا اُدھر کتا بھی ڈر کے مارے ایک طرف بھاگ نکلا۔ جب بندر اور کتا بھاگ گئے تو اچانک انھیں اپنے دوست گینڈے کا خیال آیا جو اپنے بے حد بھاری جثے کی وجہ سے تیز دوڑ نہیں سکتا تھا۔

بندر نے درخت پر کھڑے ہوکر اپنے دوست کو دیکھا جو اس وقت موت کے خطرے میں گھرا ہوا تھا، اسی طرح کتا بھی بھاگ نکلنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے رکا، اور واپس اس جگہ کی طرف پلٹا جہاں اس کا دوست شیر کی بے رحم نگاہوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔

اس نے دور سے اپنے دوست کو شیر کے آمنے سامنے کھڑا ہوا پایا۔

اُن کا دوست ابھی اتنا بڑا اور طاقتور نہیں ہوا تھا کہ شیر سے لڑ پاتا۔ اس کی اکلوتی سینگ ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی تھی کہ وہ اسے ہتھیار بناتا۔ اُدھر گینڈے کے ماں باپ بھی بہت دور تھے۔

ایک بار تو بندر کے دل میں اپنے دوست کی مدد کرنے کا خیال آیا۔ اس نے سوچا کہ وہ درخت سے شیر پر کود کر اپنے دوست کا دفاع کرے، لیکن پھر خوف اس پر حاوی ہوگیا۔ وہ دل میں کہنے لگا کہ میں ننھی سی جان بھلا کر بھی کیا سکتا ہوں؟ اگر میں شیر کے سامنے آیا تو وہ پلک جھپکتے ہی مجھے اپنا تر نوالہ بنا کر نگل جائے گا، پھر میرا گوشت بھی اُس کی بھوک مٹانے کے لیے کافی نہیں، سو مجھے کھانے کے بعد بہرحال وہ گینڈے کا شکار ضرور کرے گا تو جب گینڈے کا مرنا تو طے ہے تو پھر میری قربانی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

شیر اب دھیرے دھیرے نپے تلے قدم اٹھاتا اُن کے دوست گینڈے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جبکہ گینڈا بھی چونکہ یہ بات جانتا تھا کہ وہ اس مصیبت سے بھاگ نہیں سکتا، اس لیے آخری معرکے کی تیاری کرکے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنے دفاع کے لیے پر عزم تھا۔

بندر کو گینڈے کی یہ بہادری دیکھ کر کافی خوشی ہوئی۔ اس کے دل میں ایک خواہش نے جنم لیا،کہ کاش شیر گینڈے سے ڈر جائے یا پھر شیر گینڈے کی جنگ کے لیے تیاری دیکھ کر اسے کھانے کا اپنا ارادہ ترک کردے۔

اس خواہش کے ساتھ اسے کچھ سکون کا احساس ہوا، لیکن شیر کب لوٹنے والا تھا، موٹے تازے شکار کو سامنے دیکھ کر اُس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔

بندر کے ذہن میں شیر کی تصویر ابھرنے لگی، جو بےدردی سے اس کے دوست گینڈے کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا ہے۔ اس کا منہ اس کے دوست کے خون سے لت پت تھا۔ اس بھیانک تصور نے اس کے بدن پر لرزہ طاری کردیا اور یکایک اس کے ہاتھ سے درخت کی ٹہنی پھسل گئی۔

وہ نیچے گرنے ہی والا تھا کہ اس نے لپک کر ایک دوسری ٹہنی تھام لی۔ وہ شیر کے سامنے گرنے سے بال بال بچا تھا لیکن شیر اُس کی طرف مڑا ہی نہیں، اس کی ساری توجہ تو گینڈے کی طرف تھی۔ بندر اپنی جگہ پر ہی دم بخود کھڑا تھا کہ اچانک گینڈے نے آنکھیں اٹھا کر بندر کی طرف دیکھا۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔ دونوں کی نگاہوں میں عجیب سی بے بسی تھی۔ بندر نے محسوس کیا کہ یہ اُس کے دوست کی الوداعی نگاہ ہے۔ وہ اب اپنے دوست کو ہڈیوں کے ڈھانچے کی صورت میں ہی دیکھ پائے گا، جس کا گوشت شیر نوچ نوچ کر کھا چکا ہوگا۔
بندر نے خود سے پوچھا:

’’کیا میں اپنے دوست کو اس حالت میں دیکھ سکوں گا کہ شیر اسے مار کر اس کا گوشت نوچ ڈالے، اس کا خون پی جائے، اور میرے دوست کے اعضا ٹکڑوں میں بکھرے پڑے ہوں اور ہڈیاں چٹخ چکی ہوں؟ کیا اس کے بعد بھی زندگی کی کوئی وجہ بچتی ہے؟!