وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!
ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!
راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم
تحریر:رشید احمد منیب
کیوکشن اگرچہ کراٹے ہے لیکن میں اپنے شاگردوں کو جوڈو، اکیڈو اور جوجسٹو کی تربیت بھی دیتا ہوں۔ سیلف ڈیفنس کے نام سے رمضان میں کلاسیں ہوتی ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہر فن کو سیکھنے کے لیے محنت درکا رہوتی ہے۔ مارشل آرٹ صحت،قوت اور ہمت کاراستہ ہے۔ اس فن کو وہی سیکھ سکتاہے جس میں برداشت ہو اور جو درد اور تکلیف کی پروا نہ کرتا ہو۔ یہ تجارت نہیں ہے۔ تجارت بہت اچھا کام ہے۔ مجھے خود ملازمت کی بجائے تجارت پسند ہے لیکن میزا مزاج تجارت والا نہیں ہے۔ میں نے اپنے ملک کی خاطر فوج کی ملازمت کی ہے یا پھر اپنے فن کو ترجیح دی اور اسی کی بچوں کو تربیت دی ہے لیکن اِس فن میں سخاوت کا مزاج چلتاہے، کمانے کا نہیں۔ جو یہ فن سیکھنا اور سکھانا چاہے تو اسے فن کو اہمیت دینا ہوگی اور ذاتی نفع ونقصان کو نظر انداز کرناہوگا۔ باقی رزق کا مالک وہی ہے جو پتھر میں کیڑے کو بھی بھوکا نہیں رکھتا۔ انسان کو کوشش کرنی چاہیے لیکن نتیجہ ’’اسی‘‘ کے سپرد کرناچاہیے۔ دن، رات پیسے کی سوچ میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں اپنے فن کو صرف پیسہ کمانے کے لیے استعمال کرتا تو بہت سا پیسہ جمع کرلیتا لیکن انعام اللہ خان پھر کچھ ’’اور‘‘ ہی ہوتا۔ اُس کے فن اور ہنر سے اس کی قوم کے بچے شاید فائدہ نہ اٹھاسکتے۔
ایک دن میں اپنے کلب میں ٹریننگ دے رہا تھا کہ ایک آدمی آیا اور مجھے اشارے سے بلانے لگا۔ میں عام طورپر کلاس چھوڑ کر نہیں جاتا۔ میں نے ایک لڑکے سے کہا کہ اسے آفس میں بٹھا دو۔ کلاس کے بعد میں اس سے ملا۔ وہ کہنے لگا کہ میں نے تمھاری کافی شہرت سنی ہے۔ تم بہت زبردست لڑاکے ہو۔ کیا تم پیسوں کے لیے فائٹ کرسکتے ہو؟
میں کبھی پیسوں کے لیے نہیں لڑتا۔ میں اسے صاف انکار کردیتا لیکن وہ مجھے بالکل دیسی سا آدمی لگ رہا تھا، نہ ہی وہ فائٹر دکھائی دیتا تھا اورنہ ہی میں نے کسی کبھی کسی کلب میں دیکھا تھا۔ بات چیت سے بروہی بلوچ لگتا تھا۔ مجھے تجسس ہوا کہ یہ پیسوں کے بدلے فائٹ کی بات کیوں کررہا ہے؟ میں نے سوال کیا کہ تم پیسوں کے بدلے فائٹ کی بات کیوں کررہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ دراصل ہمارے علاقے میں جنوبی افریقہ کا ایک فائٹر آیا ہوا ہے۔ وہ بہت زبردست لڑاکا ہے۔ وہ کسی کا مہمان ہے لیکن اس کی کافی شہرت ہوگئی ہے۔ چنددن پہلے ہمارے محلے میں ایک بزرگ کے سامنے اُس فائٹر کا ذکر ہورہا تھا۔ اس بزرگ نے تمھارا نام لیا کہ تم پاکستان کے بہت بڑے فائٹر ہو اور انٹرنیشنل لیول پر لڑ چکے ہو۔ میں نے یہ بات اس آدمی کو بتائی جس کے پاس وہ افریقی فائٹر رہتا ہے۔ اس نے کہا کہ پاکستان کے کسی کھلاڑی میں اتنا دَم نہیں کہ وہ افریقی کے سامنے ٹک بھی سکے۔ کوئی پاکستانی فائٹر اس سے مقابلے کا سوچے گا بھی نہیں۔
میں نے سوال کیا کہ اس بزرگ کا نام کیا ہے؟ نام سن کر مجھے ہنسی آگئی کیوں کہ وہ میرے سگے ماموں کا نام لے رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ میں پیسوں کے لیے نہیں لڑتا، ہاں اگر ماموں نے مجھے کہا تو ضرور لڑوں گا۔
میرے ماموں کچھ عجیب سے ہیں۔ ساری زندگی انھوں نے کوئی باقاعدہ کام نہیں کیا۔ کبھی ایک کام کرلیا تو کبھی دوسرا۔ کچھ زیادہ پیسوں کی ضرورت پڑی تو ہم سے وصو ل کرلیے۔ ان کی زیادہ دوستی ابا جی کے ساتھ تھی یا پھر میرے ساتھ۔ بہت کم بولتے ہیں۔ کسی سے کوئی مطلب نہیں رکھتے، البتہ کوئی ان سے بات کرے تو بہت اچھی طرح بات کرتے ہیں۔ میں اُن کا ہمیشہ خیال رکھتا ہوں۔
خیر اگلے دن وہ آدمی میرے ماموں کو ساتھ لے آیا۔ میں نے ماموں سے پوچھا کہ آپ کہتے ہیں تو میں اس بندے سے مقابلہ کرلوں گا۔ ماموں نے کہا ہاں، کرلو۔ پاکستانیوں کے آگے سینہ چوڑ ا کرکے دِکھا رہاہے۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ماموں کو بھی اپنے ملک کا اتنا خیال ہے۔ میں نے اُس آدمی سے کہا کہ اب بتاؤ کہ مقابلہ کہاں ہوگا؟
اس نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ آپ کے پاس تو کلب ہے۔ جب آپ پیسے پر نہیں لڑنا چاہتے تو ہم کیوں اتنا خرچ کریں۔ بس یہ ایک چیلنج فائٹ ہوگی۔ ہم اس فائٹر کو لے آئیں گے دو دن بعد، آپ مقابلے کے لیے تیار رہنا۔
میں نے کہا میں اِس وقت بھی تیار ہوں۔ جب دل چاہے،شوق سے لے آنا۔ دودن بعد وہ لوگ اس افریقی فائٹر کے ساتھ آگئے۔ وہ لوگ مقامی کلچر کے مطابق اسے ایک چھوٹے سے جلوس کے ساتھ لائے تھے۔ ایک ٹرک اور دوگاڑیاں تھیں۔ وہ لوگ اپنے ساتھ ڈھول اور پٹاخے بھی لائے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی بارات ہے۔ میں فائٹ کے لیے تیار ہوگیا اور لباس پہن کر ڈوجو کے سامنے اپنی جگہ پر آگیا۔ وہ افریقی بھی آگیا تھا۔ اسے لوگو ں نے ہار پہنا رکھے تھے۔ میں نے اسے دیکھا تو اندازہ ہوگیا کہ بندہ اناڑی نہیں ہے۔ جی دار بھی ہے اور لڑنا بھی جانتا ہے۔ ایسا فائٹر کم ہی سامنے آتاہے۔ میں ڈوجو میں اتر گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا کہ وہ کس رُخ سے حملہ کرسکتاہے اور مجھے اُس کے مقابلے میں کون ساداؤ پہلے آزمانا چاہیے۔ جب کوئی تگڑا فائٹر ٹکر جائے تو اُس وقت ہوش سے کام لینے کی ضرور ت ہوتی ہے۔ اندھی چال سے خود کو زیادہ نقصان ہوسکتاہے۔ ایسی فائٹ میں جتناکام جسم کا ہوتاہے، اُس سے زیادہ دماغ کا ہوتاہے۔ درست اندازہ لگانے کے لیے انسان کو تجربہ بھی درکار ہوتاہے۔ عقل و سمجھ کو بھی ٹھیک طریقے سے کام کرنا چاہیے۔ جو نوجوان برائیوں میں پڑے رہتے ہیں اور غلط سوچوں میں گم رہتے ہیں، وہ درست اندازہ لگانے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو فائٹر بننے سے پہلے اپنی سوچ کا علاج کرناچاہیے۔
خیر جب وہ فائٹر میرے سامنے آگیا تو میں نے اندازہ لگالیا کہ وہ دراصل باکسر ہے اور کک باکسنگ جانتاہے۔ میں ڈوجو کے درمیان گردش کرتے ہوئے اس کے پینترے کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا اور پھر میں نے طے کرلیا کہ میں اسے کس طرح ضرب لگاؤں گا۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب فائٹر کو اِدھر اُدھر کا کوئی ہوش نہیں رہتا۔ اُس کی پوری توجہ اپنے ہدف کی جانب ہوتی ہے اور وہ دنیا کو بھول چکا ہوتا ہے۔ جب میں اس کیفیت میں جاتا ہوں تو میری آنکھیں ایک قاتل کی آنکھیں بن جاتی ہیں۔ میری اس کیفیت کو افریقی فائٹر نے بھانپ لیا۔ اُس نے یکدم دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر فائٹ کو روکنے کا اشارہ کیا۔
سب لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے۔
اُس نے پلٹ کر اپنے میزبان سے کہا کہ یہ تم لوگ مجھے کس کے سامنے لے آئے ہو؟ یہ بہت خطرناک انسان ہے اور یہ ایک خونی ہے۔ اُس کی آنکھیں قاتل کی آنکھیں ہیں۔ ہمارے درمیان فائٹ نہیں بلکہ جنگ ہونے والی ہے۔ میں خوامخواہ اتنی خطرناک فائٹ کیوں لڑوں جو مجھے زخمی کردے گی۔
اس کے میزبان نے سمجھایا کہ اس طرح تو ہماری بے عزتی ہوجائے گی۔ اُس نے جواب دیا کہ میں یہاں کوئی عزت کی جنگ لڑنے نہیں آیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ تم لوگوں نے اتنا خطرناک بندہ رکھا ہوا ہے۔ مجھے معلوم ہوتا کہ پاکستان میں ایسا کوئی فائٹر موجود ہے تومیں کبھی مقابلے کے لیے ہاں نہ کرتا۔ میں خاموشی سے اُن کی باتیں سنتا رہا۔ مجھے بھی بلاضرورت لڑنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ افریقی فائٹر نے آگے بڑھ کر مجھ سے ہاتھ ملایا، گلے ملا اورالوداع کہہ کر واپس ہوگیا۔ میرے ماموں نے اٹھ کر اس میزبان سے کہا کہ اسے کہو آئندہ ہمارے یہاں سینہ چوڑ اکرکے نہ چلے۔
ایک مرتبہ میں اپنے کلب میں تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں فلاں وزیر کی طرف سے آیا ہوں۔ وہ آپ کو اپنے گھر بلا رہے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ انھیں مجھ سے کوئی کام ہے؟
اس نے حیران ہوکر کہا کہ ظاہر سی بات ہے۔ کام ہے اسی لیے تو وہ بلا رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا جب انھیں کام ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ خود میرے پاس آئیں۔ میرے دفتر میں بیٹھیں، یہاں چائے نوش کریں، اپنا کام بتائیں۔ میرے بس میں ہوگا تو کروں گا۔
وہ کہنے لگا، کیا آپ وزیر صاحب کے کہنے پر اُن کے گھر حاضر نہیں ہوں گے۔ میں نے جواب دیا کہ یہ تو کام پر منحصر ہے۔ اگر ملک و قوم کا کوئی کام ہے تو انعام اللہ خان کی جان ہر وقت حاضر ہے۔ اگروزیر صاحب یہی بتادیں کہ ملک و قوم کی کوئی خدمت ہے تو میں ضرور پہنچوں گا، لیکن ان کا ذاتی کوئی کام ہے تو میری طرف سے بالکل معذرت ہے۔ ویسے مجھ فقیر سے ایک وزیر کو کیا کام پڑگیاہے؟
وہ آدمی کہنے لگاکہ مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپ اپنا فون نمبر دے دیں۔ ہوسکتاہے کہ وزیر صاحب خود بات کریں۔ میں نے کلب کا نمبر دے دیا اور کہا کہ میں جس وقت کلب میں ہوں، اسی وقت رابطہ کرلیں۔ کلاس میں ہوا تو فون نہیں سن سکوں گا۔
وہ آدمی کچھ ناراض سا ہوکر چلاگیا۔ (جاری ہے)