السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
٭ ’دستک‘ نے ہمیں غمگین کردیا۔ بات تو آپ نے درست کہی ہے۔ صرف ہولناک ہی نہیں بلکہ حیرت ناک انکشاف تھا۔شمارہ ۱۱۴۷ کا سرورق سرسبز تھا۔ عربی ادب سے ماخوذ کہانی بھی عمدہ تھی۔ ’دستک‘ نے اچھی تجویز پیش کی مگر عمل اب کون کرے گا؟ ’پھانسی کی سزا‘ حیرت زدہ تھی۔ سعد حیدر صاحب نے مہتاب جیسی چمکتی دھمکتی تحریر پیش کی۔ ’برائیوں کا مدفن‘ ہر گھر میں موجود چھوٹے چھوٹے باشعور بچوں کو سنانے والی کہانی تھی۔ ’بعلبک کی تباہی‘ ضدی قوم کا عبرت ناک انجام بتا رہی تھی۔ ’بلبلے، مینگو‘ اچھی نظمیں تھیں۔ ’مسکراہٹ کے پھول‘ خوب بھائے اور خوشبو بھی بکھیر گئے۔ باقی رہی بات ’آمنے سامنے‘ کی تو حیا احمد نے تو خط کی جگہ ایک روداد لکھ ڈالی مگر ان کے دو خط شائع ہوئے کبھی یہ اعزاز ہمیں بھی دے دیں۔ (مولانا محمد اشرف۔ حاصل پور)
ج:وہ جو سعد حیدر بھائی نے تحریر پیش کی وہ دمکتی تھی یا دھمکتی؟ دھمکانے والی کوئی بات کم ازکم ہمیں تو نظر نہ آئی!
٭میں شمارہ ۷۰۰ سے بچوں کے اسلام کی قاریہ ہوں۔یہ میرا کسی بھی رسالے میں پہلا خط ہے۔اللہ پاک آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے آج کے اس پر فتن دور میں آپ یہ رسالہ ترتیب دینے میں جو محنت اور مشقت برداشت کرتے ہیں اس کے لیے بلاشبہ آپ عنداللہ ماجور ہیں۔ شمارہ ۱۱۴۵اس وقت ہاتھوں میں ہے۔ کہانی ’خود اپنے خلاف گواہی‘ بہترین ہے۔ابو الحسن کی ’خاتمہ بالخیر‘ کمال کی بات ہے۔ اُن سمیت تمام اسیرانِ اسلام کو اللہ پاک جلدازجلد رہائی عطا فرمائے۔ ان حضرات کی آپ بیتی سننے پڑھنے کو دل بہت بے تاب ہوتا ہے۔میری خواہش ہے کہ جو میں نے تبصرہ لکھنا شروع کیا ہے تو یہ سلسلہ رکنے نہ پائے۔اور یہ بھی بتا دیجیے کہ خط بھیجنے کے بعد شائع ہونے میں کتنا عرصہ لگتا ہے۔ (امن الیاس۔لاہور)
ج:آپ خوش نصیب ہیں کہ پہلا ہی خط محض سوا مہینے میں شائع ہورہا ہے، ورنہ عموماً تین چار ماہ لگتے ہیں۔
٭شمارہ ۱۱۴۸ کا سرورق ۱۴ اگست کی نسبت سے اچھا سجا ہوا تھا۔ سب سے پہلے ’لاعلمی‘ کی چھوٹی سی تحریر کو پڑھنا شروع کیا۔ جب بی بی حاجن کے الفاظ پر پہنچی تو خیال پیدا ہوا کہ یہ تحریر میں نے پڑھی ہوئی ہے جب نام دیکھا تو اچھل پڑی کہ میرے ابو جی کا نام جگمگا رہا تھا۔ فوراً تحریر مکمل پڑھ کر اپنے ابو جی کے پاس رسالہ لے کر چلی آئی اور ساتھ ہی کہا کہ ابو جی مجھے شربت پلائیں آپ کی تحریر شامل ہے حاچاچو حافظ عبدالرزاق خان کی تحریر سبق آزمودہ تھی۔ ’’آمنے سامنے‘ کی محفل میں تیسری نشست پر ہماری امی جان اور پانچویں کرسی پر میرے ابو جان موجود تھے، آخری سیٹ مجھے ملی۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ مجھے امی جان اور ابو جان کے زیر سایہ کرسی دی۔
(منیبہ جاوید۔ احمد آباد، اٹھارہ ہزاری، جھنگ)
ج:بڑوں کے زیرسایہ رہنے ہی میں عافیت ہے۔
٭ سرورق پر جنرل اسٹور کا منظر بہت اچھا لگا۔ ’ذہین بچوں کی حاضر جوابیاں‘ اچھے انداز میں بیان کی گئیں۔ ’گھی کے پراٹھے‘ کے الفاظ پڑھتے ہی پراٹھے کھانے کادل چاہا۔ ’لے سانس بھی آہستہ‘ سنہری جالیوں کے سامنے بھائی پروفیسر محمد اسلم بیگ کا نام اچھا لگ رہا تھا۔ ’چاند میاں کا حج‘ بہن شازیہ نور کے قلم سے زبردست کہانی تھی۔ (حاجی جاوید ساقی۔ احمد آباد، اٹھارہ ہزاری، جھنگ)
ج:تو پھر کھائے آپ نے پراٹھے؟
٭شمارہ ۱۱۴۹ میں آپ صرف ہمارے ساتھ یعنی آمنے سامنے میں نظر آئے۔ ہم فٹ بال شوق سے دیکھتے ہیں لیکن ’پرچم اور میچ‘ کا واقعہ پہلی بار پڑھا۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ میں مرحوم واقعی بہت ہمت والے تھے جو اس طرح شرارتوں پر شرارتیں کر رہے تھے۔ ’قبر کی تر و تازگی‘ میں تحریر کے ساتھ ساتھ تصویر بھی پسند آئی۔ ضرور بتائیے گا تصویر کہاں کی ہے۔ سعید لخت کی کہانیاں پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ایک اچھا لکھاری بچوں کی کہانی سے بڑوں کی توجہ بھی کھینچ سکتا ہے۔
(محمد وقاص۔ جھنگ صدر)
ج:اور ایک اچھا تبصرہ نگار بھی۔
٭شمارہ ۱۱۴۸ کا سرورق بہت خوب صورت تھا۔ آنکھوں کی روشنی بڑھ گئی۔ دستک بھی نہایت قیمتی تحفوں سے مزین تھی۔یہ تحفے سمجھ میں نہیں آیا کہ کس چیز سے بنے ہیں؟سروہارا امباکر ’بدن سلسلے‘ کو چھوڑ کر آج کل پرچموں پر زور آزمائی کر رہے ہیں۔ ’لاعلمی‘ تحریر تو خواتین کا اسلام کے لیے لگی۔ ’کیا ہے آزادی؟‘ خوب صورت تحریر تھی۔ ہم بھی جھنڈیاں نہیں لگاتے کہ بعد میں پیروں تلے آتی ہیں۔ ’جنگل کی آزادی‘ تو ہم سب کے لیے ہے۔ فضیل فاروق بھائی بہت عمدہ لکھتے ہیں۔ ’ماضی کے دریچوں سے‘ پتنگ بازی پر بہترین تحریر ہمارے گھر میں بھی ایک پتنگ باز ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کی تمام دوڑیں جلائی جاچکی ہے۔ ’ننھا سا قطرہ ہمت بڑی‘ بہت شاندار تھی ہمیں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ تمھارے بائیکاٹ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ بائیکاٹ نہیں کر رہے۔ عز صدیقی کو بہت مبارک باد کہ رسالے میں اکلوتا ان ہی کا خط لگا ہے۔ ان دنوں ہم آپ کی طرف سے فکر مند ہیں اور دعاؤں کے بڑے بڑے ٹوکرے بھیج رہے ہیں۔
(بنت عبدالمجید۔ فیصل آباد)۔
ج:آپ کے اور قارئین کے دعاؤں کے یہ ٹوکرے ہمیں برابر پہنچتے رہتے ہیں اور یہ دعائیں ہی ہیں جو مشکل ترین وقت کو بھی آسان کردیتی ہیں۔اور ہاں آپ کے بائیکاٹ کرنے سے کسی اور کو کوئی فرق پڑے یا نہیں، آپ کو تو ضرور پڑے گا۔
٭’چاند میاں کا حج‘ والی کہانی بہت اچھی تھی۔ میں بھی اپنے گلے میں عمرے کے لیے پیسے جمع کرتی ہوں۔کیا پتا میں وہ پیسے فلسطین والوں کو دے دوں۔ ’رمپل ڈمپل‘ والی کہانی تو بہت مزیدار اور دلچسپ تھی۔ میری آپی بس مجھے دو ہی کہانیاں سناتی ہیں اور خود سارا رسالہ پڑھتی ہیں۔ اب میرا یہ خط جلدی سے لگادیں شکریہ۔ (اسماء بنت مفتی عبدالمجید۔ فیصل آباد)
ج:جلدی سے لگا دیا، شکریہ۔