اوّاب شاکر
’’اے عمران! تم نے آج اُن حسین آنکھوں کو دیکھا۔ تم نے دیکھا کہ کیسے موتیوں کی طرح چمک دار، خوبصورت آنسوؤں سے وہ بھاری ہوگئیں؟ اے عمران! تمھیں اُن آنسوؤں کی گواہی مبارک ہو۔
کفارِ قریش اس زخمی سانپ کی طرح ہیں جو اپنے زخم چاٹتا، خاک میں لوٹتا دیوانہ وار پھنکارتا ہے اور اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ حملہ آور ہو جائے۔ قریش نے بھی ہر داؤ آزما لیا، ہر ستم ڈھا کر دیکھ لیا، مگر ایمان کی ان بلند چٹانوں میں ہلکی سی دراڑ بھی نہ پڑ سکی، اور اب یہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی اور ازلی دعوت کے آگے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ آج ان کو کچھ اور نہ سوجھا تو تمھارے والد حصین کے پاس جا پہنچے کہ بابا جی! ہمیں آپ سے ایک بات کرنی ہے۔
وہ سب ان کی عزت کرتے ہیں اور انھیں بزرگ گردانتے ہیں۔
’’جی بیٹا! کہو کیا مسئلہ درپیش ہے؟‘‘ حصین نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔
’’چاچا جی! بات یہ ہے کہ ہم اُس شخص سے تنگ آگئے ہیں۔‘‘
اُن کا اشارہ ہمارے آقا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب تھا، کہنے لگے:’’آپ براہِ کرم اس سے جا کر بات کیجیے کہ وہ سرِعام ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتا ہے۔‘‘
’’خداؤں کو برا بھلا کہنا تو واقعتاً بڑی زیادتی ہے!‘‘
خداؤں کا ذکر سن کر تو تمھارے والد حصین بھی سیخ پا ہوگئے۔ وہ اسی حالت میں دل میں برہم خیالات کا ہجوم لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب چلے۔
’’آیئے آئیے بابا جی! تشریف رکھیے۔ مرحبا! بھائیو ذرا بزرگ کو جگہ تو دینا۔‘‘
انھیں پاس آتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور پرجوش استقبال کیا، اور تم اور جو چند صحابہ محفل میں موجود تھے تو انھیں تمھارے والد صاحب کے لیے جگہ بنانے کا کہا۔
’’اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ مجھے یہ خبریں مل رہی ہیں کہ آپ ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتے ہیں حالانکہ آپ کے والد تو ایسے نہ تھے۔ وہ تو بہت محتاط شخص تھے۔‘‘
وہ آتے ہی بول اٹھے اور دل کا غبار نکال کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت آرام سے، خاموشی سے حصین کا سارا شکوہ سنا اور اپنے مخصوص دلفریب انداز سے گویا ہوئے:
’’اے حصین! یہ بتائیے کہ آپ کتنے خداؤں کی عبادت کرتے ہیں؟‘‘
حصین یہ سوال سن کر بڑے جوش سے تفصیل سنانے لگے۔
’’ایک آسمان میں اور سات خدا زمین میں ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر پوچھا: جب آپ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو ان میں سے کس کو پکارتے ہیں؟‘‘
’’آسمان والے خدا کو۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔
’’اچھا! جب مال ہلاک ہو جائے تو پھر کسے پکارتے ہیں؟‘‘
’’تب بھی آسمان والے کو۔‘‘
’’یہ تو عجیب بات ہے کہ جب آپ پکاریں تو اکیلا آسمان والا ہی سن کر آپ کی حاجت پوری کرے مگر عبادت کرتے وقت آپ اُس کے ساتھ زمین والوں کو بھی شامل کر لیں!!! اچھا حصین! یہ بتائیے کہ آپ آسمان والے کی اجازت سے دیوتاؤں کو پکارتے ہیں یا خود ہی اُن دیوتاؤں سے ڈرتے ہیں کہ اگر آپ نے اُن کے آگے فریاد نہ کی تو وہ آپ سے ناراض ہو کر آپ کو نقصان پہنچائیں گے؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سوال تیر بن کر سیدھا حصین کے دل میں جا کھبا۔ انھوں نے لمحہ بھر سوچا اور دھیمے انداز سے بولے:’’نہیں، اِن دونوں میں سے کوئی بات نہیں۔‘‘
’’پھر کیا ہے؟‘‘
حصین نے اپنے دل سے سوال کیا کہ جب دونوں صورتیں نہیں تو وہ کون سی چیز ہے جو ان کی حاجتیں سن کر عطا کرنے والے عظیم و بلند اور خالقِ کائنات رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے پر اکساتی ہے؟ وہ خاموشی سے سوچتے جاتے تھے اور آپ کا سوال اس کے دل کی ٹھہری دنیا میں ایک تہلکہ مچا چکا تھا۔ یہ سوال ایک شور، ایک طوفان کو جنم دے رہا تھا۔
’’حصین! بتائیے آپ کیوں اِن اپنے ہاتھوں سے بنائے بتوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہیں؟ آپ کو ان سے کیا ڈر؟ کس نقصان کا خدشہ؟ کس فائدے کی امید؟ اور وہ اکیلا آسمان والا رب… کیا وہ آپ کو کافی نہیں؟ حصین آپ کہاں بھاگے پھر رہے ہیں؟ اپنی عقل کو کہاں پامال کر رہے ہیں؟ سوچیے، غور کیجیے! خود کو دیکھیے، اپنے اطراف پر نگاہ دوڑائیے۔‘‘
سوچیں تھیں کہ سکون کی دنیا اجاڑ چکی تھیں۔ اب یہاں خیالات کا ہجوم شور مچا رہا تھا اور بالآخر یہ بڑھتی سوچیں حصین کو ایک نقطے کی طرف لانے ہی لگی تھیں کہ وہ پیاری آواز ان کے کانوں سے دوبارہ ٹکرائی۔
’’حصین! اسلام لے آئیے! سلامتی پا جائیں گے!‘‘
وہ اندر سے ٹوٹ ہی چکے تھے۔ کوئی عذر، کوئی دلیل، کوئی راہِ فرار نہیں۔ اب کچھ نہ تھا۔ ان کے ترکش میں آخری ایک ہی تیر تھا۔ مصلحت پسندی کا تیر۔ جو خود ہی شکستگی کی علامت تھا۔
’’بات یہ ہے کہ میری قوم ہے، بھرا خاندان ہے، اگر اسلام لے آؤں تو مجھے خطرہ ہے، اس لیے اب میں کیا کروں؟‘‘
’’نہیں نہیں حصین!صاف کہہ دیجیے کہ اب کچھ نہیں بچا آپ کے پاس ڈھال بنانے کو۔‘‘
وہ پیغمبرِ عظیم، داعی حکیم کے سامنے تھے جو مدعو کی نبض کو خوب پہچانتے تھے۔ وہ جان چکے تھے کہ اندر کی دنیا سب درہم برہم ہو چکی، اب جب وہ بولے تو بس اتنا ہی فرمایا:
’’آپ یہ دعا پڑھ لیجیے:
اللّٰھُمَّ اِنِّی اسْتَھْدِیکَ لِاَرْشَدِ اَمْرِی وَزِدْنِی عِلْمًا یَنْفَعُن.
’’اے اللہ! میں زیادہ رشدو ہدایت والے راستے کی آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں، اور مجھے وہ علم عطا فرمائیے جو مجھے نفع بخشے!‘‘
حصین نے یہ دعاپڑھی، دعا قبول ہوئی اور ایمان نے اسی وقت ان کے دل میں اتر کر انھیں کلمہ پڑھنے پر مجبور کر دیا:
اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد عبدہ ورسولہ!
’’اور پھر عمران! یہ منظر دیکھتے ہی تم فورا اپنے والد کی جانب لپکے اور تم نے دیوانہ وار ان کے سر، ہاتھوں اور قدموں کو چوم لیا۔ عمران! وہ عجیب منظر تھا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھ رہے تھے۔ بے اختیار ان کی جھیل سی حسین آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور فرمایا:
’’عمران کے اِس رویے نے مجھے رلا دیا۔ اس کے والد حصین جب یہاں آئے تو اس وقت کافر تھے۔ عمران نہ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوئے، نہ ان کی جانب متوجہ ہوئے لیکن جیسے ہی والد کو اسلام قبول کرتے دیکھا تو فوراً آگے بڑھ کر حق ادا کر دیا۔ بس یہی بات تھی جس نے مجھ پر رقت طاری کر دی۔‘‘
عمران! نظر اٹھا کر دیکھو۔ یہ آنسو موتی بن بن حسین رخساروں کا غازہ بن رہے ہیں۔ تمھیں فرازِ زندگی عطا کرنے کو، تمھاری نجات کا پروانہ بن کر، تمھاری خدا ہی کے لیے محبتوں اور جذبات کی گواہی بن کر۔
اور مبارک ہو عمران! ان آنسوؤں کی شہادت قیامت کے دن تک کبھی بھی بھلائی نہ جائے گی کہ سب رفعتیں،سب عظمتیں، سب عزتیں ہیں ہی بس دین میں…!‘‘