غزہ/تل ابیب/نیویارک/دوحہ: اسرائیلی اخبارہارٹز نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں امدادی مراکز پر امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی جانب سے جان بوجھ فائرنگ کی جاتی ہے۔
اسرائیلی اخبار نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا کہ اسرائیلی فوج کے اہلکاروں اور افسران نے انکشاف کیا کہ غزہ میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران امدادی مراکز کے قریب فلسطینی شہریوں پر جان بوجھ کر فائرنگ کی جاتی رہی حالانکہ وہ واضح طور پر کسی خطرے کا باعث نہیں تھے۔
فوجیوں کا کہنا تھا کہ کمانڈروں نے انہیں حکم دیا کہ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ان پر براہ راست فائرنگ کی جائے، چاہے وہ امداد لینے کے لیے ہی کیوں نہ آئے ہوں، ایک فوجی نے اس صورتحال کو اسرائیلی فوج کے اخلاقی ضابطوں کا مکمل زوال قرار دیا۔
ایک فوجی نے بتایا کہ یہ ایک قتل گاہ ہے،جہاں میں تعینات تھا وہاں روزانہ مارے جانے والے افراد کی تعداد ایک سے 5 کے درمیان ہوتی تھی، انہیں دشمن سمجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے، فوج کے پاس ہجوم کو کنٹرول کرنے کے آلات نہیں ہوتے۔
صرف گولیاں، بھاری مشین گنیں، مارٹر گولے اور گرنیڈ ہوتے ہیں، جیسے ہی امدادی مرکز کھلتا ہے، فائرنگ بند ہو جاتی ہے۔ وہاں ہماری زبان صرف گولی ہے۔اس کا مزید کہنا تھا کہ کبھی ہم دور سے، کبھی قریب سے حملہ کرتے ہیں حالانکہ ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
مجھے ایسی کوئی مثال یاد نہیں آتی جہاں فلسطینیوں کی طرف سے جوابی فائرنگ کی گئی ہو، وہاں نہ دشمن ہے نہ ہتھیار۔ایک ریزرو فوجی نے اسرائیلی اخبار کو بتایا کہ غزہ اب کسی کی دلچسپی کا مرکز نہیں رہا۔
یہ ایک ایسی جگہ بن چکی ہے جہاں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ایک امدادی مرکز کی سیکورٹی پر تعینات ایک افسر نے بتایا کہ جب سویلین آبادی سے رابطے کا واحد ذریعہ فائرنگ ہو تو یہ انتہائی ناقابل قبول صورتحال بن جاتی ہے۔
افسر کے مطابق امدادی مراکز کی سیکورٹی کئی پرتوں پر مشتمل ہوتی ہے، امدادی مرکز کے اندر امریکی ہوتے ہیں، بیرونی حصے میں بعض فلسطینی مسلح محافظ ہوتے ہیں جبکہ اسرائیلی فوج ٹینکوں، اسنائپرز اور مارٹر گولوں کے ذریعے حفاظتی دائرہ قائم رکھتی ہے۔
افسر نے مزید بتایا کہ رات کو ہم فائرنگ کر کے عوام کو خبردار کرتے ہیں کہ یہ جنگی علاقہ ہے، ایک مرتبہ جب ہم نے فائرنگ بند کی تو لوگ قریب آنا شروع ہوگئے، ہم نے دوبارہ فائرنگ کی تو ایک مارٹر گولہ ہجوم پر جاگرا۔
افسر نے کہا کہ ایک کامبیٹ بریگیڈ کے پاس جنگ زدہ علاقے میں عام شہریوں سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ ذرائع موجود نہیں ہوتے۔ امداد کے متلاشی بھوکے لوگوں کو دور رکھنے کے لیے مارٹر گولے فائر کرنا پیشہ ورانہ اصولوں اور انسانی اقدار کے خلاف ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو صرف امداد لینا چاہتے ہیں اور ایک ریاست کے طور پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس امداد کی فراہمی کو محفوظ بنائیں تاہم اخبار ہارٹز کے مطابق فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ فوج شہریوں اور فورسز کے درمیان ممکنہ تصادم کو کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور شہری نقصانات کی رپورٹوں کے بعد تحقیقات کی گئی ہیں اور زمینی فورسز کو نئی ہدایات دی گئی ہیں۔
اخبار نے مزید لکھا کہ فوج میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے ممکنہ واقعات کی جانچ کرنے والے یونٹ کو گزشتہ ایک ماہ کے دوران امدادی سامان کی تقسیم کے مقامات پر پیش آنے والے ہلاکت خیز واقعات میں ملوث فوجی اہلکاروں کے طرز عمل کی چھان بین کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے بائیں بازو کے اسرائیلی روزنامہ ہارٹز کی اس رپورٹ کو سختی سے مسترد کر دیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کے اندر امدادی مقامات کے قریب آنے والے فلسطینیوں پر گولی چلانے کا حکم دیا گیا تھا۔
انہوں نے رپورٹ کے نتائج کو ”فوج کو بدنام کرنے کے لیے تیار کردہ بدنیتی پر مبنی جھوٹ” قرار دیا۔دریں اثناء اسرائیلی اخبار ہارٹزنے اپنی رپورٹ میں ایک اور انکشاف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی شہادتوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جو علاقے کی مجموی آبادی کا4فی صد ہے۔
یہ شہادتیں براہ راست اسرائیلی حملوں یا جنگ کے بالواسطہ اثرات کے باعث ہوئیں جن کا آغاز7اکتوبر2023ء سے ہوا تھا۔ اخبار کے مطابق یہ جنگ اکیسویں صدی کی سب سے خونی جنگ بن چکی ہے۔
اخبار نے بین الاقوامی محققین کے ایک غیر شائع شدہ مطالعے کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں وزارتِ صحت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار حقیقت سے کم ہیں۔ تحقیق میں شامل ماہرین نے بتایا کہ بھوک، بیماری اور خوراک کی تقسیم کے مراکز پر اسرائیلی فائرنگ نے غزہ کی جنگ کو غیر معمولی طور پر مہلک بنا دیا ہے۔
اخبار کے مطابق اگرچہ اسرائیل میں بہت سے سرکاری ترجمان اور صحافی فلسطینی وزارت صحت کے اعداد و شمار کو مبالغہ آمیز کہتے ہیں لیکن عالمی ماہرین کا موقف ہے کہ یہ اعداد و شمار نہ صرف معتبر ہیں بلکہ ممکن ہے کہ حقیقت سے کم ہوں۔
رپورٹ میں لندن یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل سباگات کی قیادت میں کی گئی تحقیق کو سب سے جامع قرار دیا گیا جس میں فلسطینی سیاسی ماہر ڈاکٹر خلیل الشقاقی کی معاونت بھی شامل تھی۔
اس تحقیق میں غزہ کے دو ہزار خاندانوں پر مشتمل آبادی کا سروے کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ جنوری2025ء تک تقریباً75ہزار200فلسطینی جنگ کے دوران شہیدہو چکے تھے جن میں اکثریت اسرائیلی بم باری کا نشانہ بنی۔
اس وقت وزارتِ صحت نے شہادتوں کی تعداد45ہزار660بتائی تھی یعنی سرکاری اعداد و شمار میں تقریباً40فیصد کمی پائی گئی۔اگرچہ یہ تحقیق ابھی تک نظرثانی کے مرحلے سے نہیں گزری لیکن اس کے نتائج لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی ایک علیحدہ تحقیق سے کافی حد تک مشابہ ہیں۔
اس میں بھی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار اور اصل تعداد کے درمیان یہی فرق ظاہر کیا گیا تھا۔پروفیسر سباگات کے مطابق، غزہ کی جنگ کو دیگر حالیہ تنازعات مثلًا شام، یوکرین اور سوڈان کے مقابلے میں غیر جنگجوئوں کی سب سے بڑی تعداد میں شہادتوں کے سبب منفرد حیثیت حاصل ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہید ہونے والوں میں56فی صد خواتین اور بچے تھے جو کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی بھی جنگ میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ تحقیق کرنے والی ٹیم نے جنگجوئوں کی شناخت کے لیے کوشش کی تو بمشکل چند سو افراد کے شواہد ہی جمع ہو سکے۔
ادھرغزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی بدستورجاری ہے اور24گھنٹے میں صہیونی درندوں نے مزید81افراد کو شہید اور4سو22کو زخمی کردیا ۔عرب میڈیا کے مطابق 24 گھنٹے میں مزید 81 فلسطینی شہید، 422 افراد زخمی ہوگئے۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل نے نصیرات، زہرا، مغرقہ کی میونسپلٹیز اور شمالی ساحلی پٹی سمیت متعدد علاقے خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
علاوہ ازیںاقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل گوتریس نے غزہ کی پٹی میں امریکی حمایت یافتہ امدادی کارروائی کو ”فطری طور پر غیر محفوظ”قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی زیرقیادت انسانی ہمدردی کی کوششوں کو دبایا جا رہا ہے ۔ امدادی کارکن خود بھوکے مر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو امداد کی فراہمی کی منظوری اور سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔گوتریس نے بتایا کہ لوگوں کو محض اس لیے مارا جا رہا ہے کہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کھانے کی تلاش موت کی سزا نہیں بننی چاہیے۔قبل ازیںڈاکٹرز ودآئوٹ بارڈرز(ایم ایس ایف)نے غزہ ہیومینٹیرین فائونڈیشن (جی ایچ ایف)کی سرگرمیوں کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فائونڈیشن کو اسرائیل اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔
ایم ایس ایف اسے ”بار بار قتل عام” کا ذمہ دارسمجھتی ہے اور زندگی کی کم سے کم ضروریات کے حصول کے لیے اس پر فلسطینیوں کی تذلیل کرنے کا الزام ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایم ایس ایف نے ایک بیان میں کہا کہ جی ایچ ایف جس نے گزشتہ ماہ اسرائیل اور امریکا کی حمایت اور فنڈنگ کے ساتھ کام شروع کیا تھا، نے فلسطینیوں کی تذلیل کے لیے انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ بھوک سے مرنے یا کم از کم ضروریات کے حصول کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا انتخاب کریں۔
اس فائونڈیشن کا فوری خاتمہ کیا جائے۔ ایم ایس ایف نے کہا کہ خوراک کی تقسیم کے مراکز کا سفر کرنے والے 500 سے زائد افرادشہید اور تقریباً 4,000 دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔
قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کا کہنا ہے کہ ثالث اسرائیل اور حماس کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ اس ہفتے ایران کے ساتھ ہونے والی فائر بندی کی پیش رفت کو آگے بڑھایا جا سکے اور غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی کوشش کی جا سکے۔
انہوں نے اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا اگر ہم اس موقعے اور موجودہ پیش رفت سے فائدہ نہ اٹھا سکے تو یہ ایک اور ضائع شدہ موقع ہو گا جیسے کہ حالیہ ماضی میں کئی مواقع ضائع ہو چکے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایسا دوبارہ ہو۔
وائٹ ہاوس میں میڈیا سے گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میرے خیال میں غزہ میں آئندہ ہفتے تک جنگ بندی ہوجائیگی۔