امریکا کے ساتھ کئی ہفتوں سے جاری براہ راست بات چیت کے بعد فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس نے امریکی شہریت والے اسرائیلی قیدی عِدن الیگزینڈر کو رہا کردیا۔حماس نے غزہ کے علاقے خان یونس کے شمال میں ریڈکراس کے حوالے کیا۔ عدن الیگزینڈر ان یرغمالیوں میں شامل تھے جسے حماس نے اسرائیل پر حملے کے وقت غزہ سے پکڑا تھا۔ اس سے پہلے حماس کے ایک سینئر رہنما نے انکشاف کیا تھا کہ حماس اور امریکی انتظامیہ کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے براہِ راست بات چیت جاری ہے۔
مارچ کے مہینے میں امریکی صدر کے نمایندہ برائے یرغمالی امور نے بغیر اسرائیل کو اطلاع دیے قطری دارالحکومت دوحہ میں حماس کے اعلیٰ رہنماؤں سے براہِ راست ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں غزہ میں قید امریکی قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بات چیت ہوئی۔حماس نے اس وقت وضاحت کی تھی کہ مصر، قطر اور امریکی ثالثوں کے ذریعے جو بات چیت ہوئی اس کا بنیادی مقصد اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ، قابض اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء اور غزہ کی تعمیرِ نو کے مراحل کا تعین تھا۔ چار ملاقاتوں کے بعد ان مذاکرات میں اُس وقت تعطل آیا جب امریکا نے ایک جزوی معاہدے کی تجویز دی جس کے تحت صرف ایک زندہ امریکی قیدی اور چار لاشوں کی رہائی کی بات کی گئی تاہم چوتھی ملاقات میں امریکی مؤقف یکسر بدل گیا اور امریکی نمایندے نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ قیدیوں کی رہائی کے لیے کوئی شرط نہیں چاہتے ، جس کے بعد مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے ختم ہو گئے۔
تاہم اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطیٰ کے آغاز پرامریکا اور حماس کے درمیان امریکی اسرائیلی قیدی کی رہائی پر اتفاق ہوگیا جسے مبصرین ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ خودامریکی صدر نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میںاس رہائی کو نیک نیتی کا اشارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ یہ قدم ان ضروری اور حتمی اقدامات میں سے پہلا ہو گا جو اس وحشیانہ تنازع کو ختم کرنے لیے ضروری ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اگر چہ یہ دعوی کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں فون کرکے امریکی قیدی کی رہائی کے معاملے پر اعتماد میں لیا ہے تاہم عالمی ذرائع ابلاغ اور خود اسرائیلی میڈیا بتارہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرکے نیتن یاہو اور ان کی حکومت پر اعتماد کے فقدان کا اشارہ دے دیا ہے اور بعض رپورٹوں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ نیتن یاہو اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کو اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں کتنی خلیج پیدا ہوچکی ہے اور کیا امریکی قیادت واقعی پنجہ یہود سے اپنی رگ جاں بچاکر نکالنے کا سوچ رہی ہے؟ اس کا اندازہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ خلیج کے دوران کیے جانے والے اعلانات اور اقدامات سے ہوجائے گا تاہم بہت سے عالمی مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ امریکا میں اب یہ سوچ پختہ ہوتی جارہی ہے کہ اسرائیل اگر کسی زمانے میں امریکا کے لیے مشرق وسطیٰ میں ایک اثاثہ تھا تو اب وہ ایک ناگوار بوجھ بنتا جارہا ہے۔نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے انتہاپسند وزرا کے اقدامات امریکا کے ان حلقوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں جو دنیا کو لبر ل ازم اور انسانی حقوق کا سبق پڑھایا کرتے تھے۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اپنی ذاتی افتاد طبع کے لحاظ سے تو نیتن یاہو سے مختلف نہیں ہیں تاہم ان کی حریص نگاہیں خلیج کی امیر ریاستوں کی دولت پر بھی لگی ہوئی ہیں اور وہ ان ممالک کو اسلحہ اور دیگر ساز وسامان بیچ کر ان کی دولت کشید کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اب امریکا کے پاس بیچنے کے لیے وہ تباہ کن اسلحہ ہی رہ گیا ہے جو اس نے دنیا پر اپنی برتری قائم کرنے کے لیے بناکر رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ عرب ممالک امریکی اسلحہ سے لیس ہوں لیکن ٹرمپ سرکار یہ سمجھتی ہے کہ اب مشرق وسطیٰ اور خلیج میں اسلحے کی دوڑ لگواکر ہی وہ اپنی ڈوبتی معیشت کو بچاسکتا ہے۔ چنانچہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ حالیہ دورہ خلیج کے دوران امریکا اور خلیجی ممالک کے درمیان کھربوں ڈالرز کے تجارتی معاہدے ہوں گے جن میں بڑا حصہ امریکا سے اسلحے کی خریداری کا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ امریکا عرب ممالک کو ہتھیار فروخت کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اس سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہ ہو تاہم اسرائیل کسی بھی صورت میں کسی مسلم اور عرب ملک کے پاس خطرناک جدید ہتھیاروں کی موجودگی کو پسند نہیں کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا ایک جانب مشرق وسطیٰ میں اپنے لے پالک اسرائیل کے مفادات اور دوسری جانب خلیجی ممالک سے کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے لالچ میں سے کس کو ترجیح دے گا۔امریکی صدر کا اپنے دوسرے دور صدارت کے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کو منتخب کرنا اور اپنے دورے سے پہلے حماس کے ساتھ بات چیت کے ذریعے غزہ میں امدادی سامان کی رسائی ممکن بنانے کا عندیہ دینا اس بات کی علامت ہے کہ امریکا بہر حال مشرق وسطیٰ سے متعلق نئی حقیقتوں کا سامنا کرنے اور اسرائیل اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن لانے کے لئے کوشاں ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق امریکی صدر غزہ میں طاقت کے استعمال کی اسرائیلی پالیسی کی مکمل پشت پناہی کرنے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں ہے اور اگر اسرائیل اٹھارہ مہینوں تک طاقت کا بہیمانہ استعمال کرنے کے بعد بھی فلسطینیوں کے عزم کو توڑنے میں ناکام ہے تو اب آیندہ بھی اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر اس کا ذرہ برابر بھی امکان ہوتا تو شاید امریکی صدر حماس کے ساتھ براہ راست بات چیت کو کبھی تیار نہ ہوتے جس کو وہ کھلے عام دہشت گرد کہتے آئے ہیں۔ امریکی صدر نے اپنے سابقہ موقف سے مکمل انحراف کرتے ہوئے حماس سے براہ راست مذاکرات کیے ہیں اور یہ مذاکرات صرف امریکی قیدی کی رہائی کے معاملے تک محدود نہیں ہیں بلکہ غزہ میں مکمل جنگ بندی کے بعد ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کے ذریعے غزہ کا انتظام چلانے کی بھی بات چل رہی ہے جس سے حماس اصولی طور پر اتفاق ظاہر کر چکی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ امریکی صدر کی ایک بڑی کامیابی تصور کی جائے گی اور بعض اطلاعات کے مطابق امریکی صدر خود کو امن کا پیامبر ثابت کرکے امن کے نوبیل انعام کے حصول کے بھی امیدوار ہیں۔ یہ اب ڈونلڈ ٹرمپ پر ہی ہے کہ وہ خود کو اس اعزاز کا اہل ثابت کرنے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔