چوتھی قسط:
(٢) دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر جہاد شرعی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے تو جو مسلمان غیر مسلم اکثریت کے ملکوں میں اقلیت کے طور پر رہتے ہیں، ان کی ذمہ داری کیا ہے اور کیا ان کے لیے جہاد میں شمولیت ضروری نہیں ہے؟ اس کے جواب میں دو واقعات کا حوالہ دینا چاہوں گا۔
ایک یہ کہ غزوہ بدر کے موقع پر حضرت حذیفہ بن یمان اور ان کے والد محترم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کی خدمت میں جہاد میں شمولیت کے لیے حاضر ہو رہے تھے کہ راستے میں کفار کے ایک گروہ نے گرفتار کر لیا اور اس شرط پر انہوں نے ہمیں رہا کیا ہے کہ ہم ان کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر حصہ نہیں لیں گے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرما کر انہیں بدر کے معرکے میں شریک ہونے سے روک دیا کہ اگر تم نے اس بات کا وعدہ کر لیا ہے تو اس وعدہ کی پاسداری تم پر لازم ہے، چنانچہ حضرت حذیفہ اور ان کے والد محترم حضرت یمان موجود ہوتے ہوئے بھی بدر کے معرکے میں مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے سکے تھے۔ اسی طرح حضرت سلمان فارسی نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم قبا میں قیام فرما تھے اور ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے لیکن حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا ذکر نہ بدر کے مجاہدین میں ملتا ہے اور نہ وہ احد ہی میں شریک ہو سکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت آزاد نہیں تھے بلکہ ایک یہودی کے غلام تھے، چنانچہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی شمولیت جس پہلے غزوے میں ہوئی، وہ احزاب کا معرکہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ نے جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کے معروضی حالات اور ان کی مجبوریوں کا لحاظ رکھا ہے، اس لیے جو مسلمان غیرمسلم اکثریت کے ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے ان ریاستوں کے ساتھ وفاداری کے معاہدات موجود ہیں، ان کے لیے ان معاہدات کی پاسداری لازمی ہے، البتہ اپنے ملکوں کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد اور ہمدردی و خیر خواہی کے لیے وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، وہ ان کی دینی ذمہ داری ہے اور اس میں انہیں کسی درجے میں بھی کوتاہی روا نہیں رکھنی چاہیے۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے موقع پر میں برطانیہ میں تھا۔ مجھ سے وہاں کے بہت سے مسلمانوں نے دریافت کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کو یہودیوں کی پیروی کرنا چاہیے اور ان سے کام کا طریقہ سیکھنا چاہیے کیونکہ یہودی ان ممالک میں رہتے ہوئے جو کچھ یہودیت کے عالمی غلبہ اور اسرائیل کے تحفظ و دفاع کے لیے کر رہے ہیں، اسلام کے غلبہ اور مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے لیے وہ سب کچھ کرنا مسلمانوں کا بھی حق ہے، مگر یہ کام طریقہ اور ترتیب کے ساتھ ہونا چاہیے اور جن ملکوں میں مسلمان رہ رہے ہیں، ان کے ساتھ اپنے معاہدات اور کمٹمنٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔
(١) آج دنیا کی عمومی صورتحال پھر اس سطح پر آ گئی ہے کہ خواہشات اور محدود عقل پرستی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور آسمانی تعلیمات کا نام لینے کو جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ آج کی اجتماعی عقل نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے انکار کر کے حاکمیت مطلقہ کا منصب خود سنبھال لیا ہے اور وحی الٰہی سے راہ نمائی حاصل کرنے کی بجائے اس کے نشانات و اثرات کو ختم کرنے کی ہر سطح پر کوشش ہو رہی ہے۔ اس فضا میں ”اعلائے کلمة اللہ” کا پرچم پھر سے بلند کرنا اگرچہ مشکل بلکہ مشکل تر دکھائی دیتا ہے لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت و سیرت کا تقاضا یہی ہے کہ نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی کے فریب سے نکالا جائے اور اسے آسمانی تعلیمات کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے وحی الٰہی کے ہدایات کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جائے۔
(٢) اس کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان جس مظلومیت اور کسمپرسی کے عالم میں ظالم اور متسلط قوتوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور انہیں جس بے رحمی اور سنگ دلی کے ساتھ ان کے مذہبی تشخص کے ساتھ ساتھ قومی آزادی اور علاقائی خود مختاری سے محروم کیا جا رہا ہے، اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا اور ان مظلوم مسلمانوں کو ظلم و جبر کے ماحول سے نجات دلانے کے لیے جو کچھ ممکن ہو، کر گزرنا یہ بھی حضور کی تعلیمات و ارشادات کا ایک اہم حصہ ہے جس سے صرف نظر کر کے ہم آپ کی اتباع اور پیروی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
ان دو عظیم تر ملی مقاصد کے لیے جدوجہد کے مختلف شعبے ہیں۔ فکر و فلسفہ کا میدان ہے، میڈیا اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کی جولان گاہ ہے، تہذیب و ثقافت کا محاذ ہے، تعلیم و تربیت کا دائرہ ہے، لابنگ اور سفارت کاری کا شعبہ ہے ،اور عسکری صلاحیت کے ساتھ ہتھیاروں کی معرکہ آرائی ہے۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے شعبے اور اعلاء کلمة اللہ کے ناگزیر تقاضے ہیں۔ (جاری ہے)