سرکاری اور درباری

بزرگ دعا دیا کرتے تھے کہ اللہ کبھی تھانے اور کچہری نہ لے جائے۔ کچھ جہاندیدہ ان میں ہسپتال کے لفظ کا بھی اضافہ کرتے تھے اور حقیقت یہی ہے کہ ساٹھ ستر سال سے نسل در نسل چلی آتی یہ دعا آج بھی اسی طرح بہترین دعاؤں کی فہرست میں شامل ہے۔ خدا کرے کسی کو کسی کام کیلئے ان جگہوں پر جانا نہ پڑے لیکن یہ زندگی ہے بہت سی چیزوں سے مفر ممکن نہیں۔ جانا پڑ جائے تو انسان کی تذلیل تکلیف اور دربدر رسوائی کے ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک دو گھنٹے ہی میں زندگی تیز مرچوں کی بوری لگنے لگتی ہے جس میں آپ کو سی دیا گیا ہو۔ اللہ کا شکر ہے کبھی تھانے کچہری میں ملزم یا مجرم بن کر جانا نہیں پڑا۔ جب بھی مجبوری میں جانا پڑا کسی ایسے مسئلے کیلئے جو بہرحال بہت بڑے مسائل میں نہیں تھا۔ شکر در شکر یہ کہ ان کیلئے بھی لاہور جیسے بڑے شہر میں جانا ہوا کسی چھوٹے شہر یا قصبے کے تھانے یا کچہری میں نہیں۔ تھوڑی بہت عزت بھی معاشرے میں موجود ہے ،کچھ تعلقات بھی اللہ نے جیب میں کچھ سکے بھی ڈال رکھے ہیں لیکن اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سہارے نہ ہوتے تو کس حالت میں جاتے اور کس حالت میں نکلتے اگر نکلتے تو۔ حساس آدمی کیلئے تو بار بار تجربے کی ضرورت بھی نہیں ایک آدھ تجربہ ہی زندگی بھر کیلئے بہت ہو جاتا ہے۔

بہت سال گزرے ایک تھانے میں ایک ایس ایچ اوکے سامنے بیٹھا تھا۔ سرخ اینٹوں والی عمارت میں چند بلب یرقانی زردی پھیلا رہے تھے اور رات کی سیاہی اس زردی کے ساتھ مل کر ماحول کو ایسا خوفناک بناتی تھی کہ انسان ملزم نہ بھی ہو تب بھی ضرورت سے زیادہ ایک سیکنڈ نہ ٹھہرے۔ میں کسی جرم یا الزام میں بلوایا نہیں گیا تھا بلکہ مجھے چوری کے کچھ ملزمان کی ایف آئی آر درج کرانی تھی۔ ایس ایچ او تو محض چھوٹا سا لقب تھا صاحب کو تو صدر یا شہنشاہ کا لقب جچتا تھا۔ مطلق العنان شہنشاہ جس کا قول حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ بلند بانگ ایس ایچ او کی گرجدار آواز تھانے کے باہر تک جاتی تھی۔ بے مروتی سختی اور کرختگی اوپر سے نیچے تک عملے کے ہر چہرے پر کھدی ہوئی تھی۔ ایسی کہ مسکراہٹ ان اوصاف میں مزید اضافہ کر دیتی تھی۔ ایس ایچ او صاحب کے ہر جملے میں دو تین گالیاں تھیں۔ جن کا مخاطب شکر ہے کہ میں نہیں تھا۔ لیکن ان فحش گالیوں کے بغیر ان کی کوئی بات مکمل نہیں ہوتی تھی۔ جس مقصد کیلئے گیا تھا اور جس حوالے کے ساتھ گیا تھا وہ بہت دیر میں زیرِ گفتگو آیا۔ پہلے تو صاحب نے اسلامی اخلاقیات اور موجودہ سیاست پر ایک گھنٹے کا لیکچر دیا جس کے دوران سامنے بیٹھے لوگ مداخلت نہیں کر سکتے تھے۔ یہ کسی طرح ختم ہوا تو بات ایف آئی آر اور پرچے کی طرف آئی۔ ملزمان کو خوب دشنام کرنے کے بعد انہوں نے ان ارادوں اور عزائم کا اظہار کیا جو وہ ملزمان کے ساتھ تھانے میں کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ پھر ہماری ان غلطیوں کی نشاندہی کی جن کی وجہ سے ہمیں یہ مالی نقصان پہنچا تھا۔ اپنے وسائل کی کمی اور نفری کی قلت کا عذر بتایا۔ ایک ملزم جو ان کے تھانے کی حدود سے باہر تھا، اس کیلئے متعلقہ تھانے سے رجوع کرنے کا مشورہ نما حکم دیا۔ اور آخر اپنے بچوں کی ان خواہشات کا ذکر کرنے کے بعد جنہیں اپنی کم تنخواہ کی وجہ سے پورا کرنا ان کیلئے ممکن نہیں تھا اور پھر ان مجبوریوں کا ذکر کیا جن کی وجہ سے وہ ہمارا کام جلد نہیں کر سکتے تھے۔ ہم تین گھنٹے کے بعد تھانے سے باہر نکلے تو ایسا لگا کہ کسی الگ دنیا میں نکل آئے ہیں۔ کام ہونا نہ ہونا الگ بات لیکن میں اس رات اس دعا کے بارے میں سوچتا رہا جو بزرگ دیا کرتے تھے کہ اللہ کسی کو تھانے کچہری اور ہسپتال نہ لے جائے۔

میں اس دعا میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ اضافہ بھی معقول اور ہر شخص کے تجربے کا حصے دار۔ اللہ کبھی کسی کو سرکاری دفاتر میں بھی نہ لے جائے۔ نہ سائل بنا کر نہ مسئول کی حیثیت میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک عام شہری کیلئے سرکاری دفاتر عقوبت خانوں سے کم نہیں۔ انسان کو اپنے بے وقعت ہونے کا احساس کرنا ہو تو وہ کسی بھی سرکاری دفتر میں کسی کام سے چلا جائے۔ یہاں آپ کے تنگ کیے جانے کمرہ بہ کمرہ در بدر ٹھوکریں کھانے کے وہ سامان موجود ہیں جو کسی ایک جگہ میسر نہیں آ سکتے۔ میرے پچھلے کچھ دن شہری ترقیاتی ادارے کے مرکزی دفتر میں ایسی ہی عزت افزائیوں میں گزرے۔ کام بھی ناجائزنہیں تھا نہ کچھ خاص مشکل تھا۔ یہ دفتر شہر میں مرکزی جگہ پر ہے اور بہت اچھی عمارت میں واقع ہے۔ میرا پہلی بار جانا ہوا تھا اس لیے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ایک وسیع ہال میں اے سی لگے ہوئے تھے اور شہریوں کے بیٹھنے کی مناسب سہولتیں موجود تھیں۔ بہت سے کاونٹر تھے اور یقینا بہت سے کام یہاں ہوتے ہوں گے۔ لیکن ہمیں معلومات کیلئے مختلف کمروں میں مختلف لوگوں سے ملنا پڑا۔

ایک دو ملاقاتوں کے بعد ہی اندازہ ہونے لگا کہ صرف عمارت بدلی ہے کلرکوں اور افسروں کا مزاج اور رویہ نہیں بدلا۔ منہ کھول کر بیٹھے ہوئے اہلکار سائل کو مختلف کمروں میں گھمانا اور تنگ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جائز کام ناجائز کام سے زیادہ مشکل ہے اس لیے کہ سائل سمجھتا ہے کہ جائز کام کیلئے پیسے کیوں دیے جائیں جبکہ ناجائز کاموں والے ذہنی طور پر اس کیلئے تیار ہوکر آتے ہیں۔ ایک کمرے میں پہنچے تو دو اہلکار بیٹھے تھے۔ اہلکار ب نے الف کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ آپ سے تعاون کریں گے آپ ان سے تعاون کیجئے گا۔ کام ہونا نہ ہونا الگ بات تھی لیکن ’’تعاونـ‘‘ کا یہ کھلے عام تبادلہ سرکاری دفتروں کا وہ دستور ہے جو ہر دستور ہر قانون پر فائق ہے۔ ایک صاحب کے پاس کسی واقف کار کے حوالے سے پہنچے تو ان کی شکل دیکھتے ہی دل بیٹھنے لگا۔ ایک خرانٹ ادھیڑ عمر آدمی جسے ملازمت میں یقینا 30سے 40سال ہو چکے تھے اور جس کے چہرے پر وہ لفظ لکھے تھے جو ہر خواندہ نا خواندہ آسانی سے پڑھ سکتا تھا۔ انہوں نے ابتدائی جملوں میں ہی یہ بات واضح کردی کہ ہم نہایت ہی مشکل کام کیلئے ان کے پاس آئے ہیں اور یہ کام ان کے سوا کوئی اور کر بھی نہیں سکتا۔ وہ ایک ہی بات کو مختلف پینتروں سے بیان کرنے کے ماہر تھے اور طویل ملازمت نے انہیں بہت مشاق کر رکھا تھا۔ ان کے متضاد جملوں کا ایک مطلب نکالنا اس کام سے زیادہ مشکل تھا جس کیلئے ہم آئے تھے۔ وہ گفتگو کے دھنی تھے لیکن ان کی گفتگو بہرحال گالیوں سے مرصع نہیں تھی۔

انہوں نے بتایا کہ اگر ہم فلاں حوالے کے ساتھ ان کے پاس نہ آئے ہوتے تو وہ ہمیں انکار کر دیتے۔ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہو جائے گا خرچہ البتہ ہوگا۔ ہم نے خرچے کے بارے میں پوچھا۔ لیکن جواب سے پہلے انہوں نے محکمے میں اپنی اہمیت اور اپنے تجربے کے بارے میں سیر حاصل گفتگو ضروری سمجھی۔ سائل ہو اور صبر کے گھونٹ نہ پیتا رہے ممکن نہیں اور ہم بہرحال سائل تھے۔ کوئی نتیجہ خیز بات نہ نکلی تو بالآخر ہم نے پھر اس ناممکن حد تک مشکل کام کے خرچے کے بارے میں پوچھا۔ وہ اندازہ کرنا چاہتے تھے کہ ہم کس حد تک مجبور ہیں اور یہ کام ہمارے لیے کتنا ضروری ہے۔ بالآخر بولے: خرچے دو طرح کے ہیں سرکاری اور درباری۔ سرکاری خرچ تو اتنا ہوگا درباری خرچ اس سے پانچ گنا زیادہ۔ لیکن یہ اندازہ ہے! ٹھیک درباری خرچ کیلئے میں معلومات لے کر بتاؤں گا۔ کام کتنی دیر میں ہوگا؟ بولے: دو مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔ چار بھی اور آٹھ بھی۔ ہم نے کہا: سرکاری اور درباری دونوں طرح کے خرچ کا ٹھیک اندازہ ہو جاتا تو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو جاتی۔ بولے: آپ رابطہ رکھیں۔ اندازہ ہو ہی جائے گا۔ سو اندازہ ہو گیا۔

سرکار پر دربار کی حاکمیت کا اندازہ کرنا ہو تو کسی بھی سرکاری دفتر میں چلے جائیں جہاں دربار سجے ہیں۔ میں تو نہ سرکاری ہوں نہ درباری۔ سو میں تو یہی دعا دے سکتا ہوں کہ اللہ کسی کو تھانے کچہری ہسپتال اور سرکاری دفتر نہ لے جائے۔