موسمی تغیرات سے تباہی کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا جائے

وطن عزیز پاکستان ایک بار پھر تباہ کن قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ خیبر پختونخوا ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں کلاؤڈ برسٹ، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ہے۔ مختلف حادثات میںشہید ہونے والوں کی تعداد 350تک جاپہنچی جبکہ متعدد افراد زخمی اور لاپتا ہو گئے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ملک کے بالائی علاقوں میں مون سون کے ساتویں اسپیل نے نظام زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اموات بادل پھٹنے، آسمانی بجلی گرنے، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں اور مکانات منہدم ہونے سے ہوئیں۔ ضلع بونیرسب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 157 سے تجاوز کر گئی ۔ ضلع باجوڑ میں آسمانی بجلی گرنے اور کلائوڈ برسٹ سے جاں بحق افراد کی تعداد 21 ہوگئی جبکہ 5 افراد زخمی ہوگئے ۔ مانسہرہ میں بٹل کے پہاڑی گائوں ڈھیری حلیم میں کلائوڈ برسٹ سے متعدد افراد جاں بحق ہوگئے۔ سوات کے علاقے بیش بنڑ میں آسمانی بجلی گر گئی 8 افراد سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے۔ آ زاد کشمیر اورگلگت بلتستان میں بھی بادل پھٹنے سے تباہی کا سامنا ہے۔ سڑکیں اور پل تباہ ہونے سے کئی علاقوں کے درمیان زمینی رابطے منقطع ہوچکے ہیں۔ وادی نیلم میں رتی گلی کے مقام پر 500 سیاح بیس کیمپ میں پھنس گئے ۔ گلگت بلتستان میں بھی کلاؤڈ برسٹ نے شدید تباہی مچائی ہے۔ غذر میں سیلاب میں بہہ جانے والوں کی تعداد 10 ہوگئی۔ بارش کے باعث فصلیں، مکانات، باغات، رابطہ پل اور واٹر چینل تباہ ہوگئے۔ استور میں سیلاب سے تیار فصلیں، دکانیں، درخت بہہ گئے۔ بونیر، باجوڑ، مانسہرہ اور بٹگرام آفت زدہ اضلاع قرار دے دیے گئے ہیں۔

ایک اور افسوسناک واقعے میں خیبر پختونخوا حکومت کا ہیلی کاپٹر باجوڑ سے پشاور آتے ہوئے لاپتا ہوا اور ضلع مہمندمیں گر کر تباہ ہوگیا، جس میں سوار عملے کے 5 افراد شہید ہوئے۔ محکمہ موسمیات نے موسلادھار بارشوں کا موجودہ سلسلہ 21 اگست تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ مون سون بارشوں کے باعث دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم اے پنجاب کی جانب سے جاری فیکٹ شیٹ کے مطابق دریائے سندھ میں کالاباغ، تربیلا اور تونسہ کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے سوات اور دریائے پنجکوڑہ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے چترال، دریائے سرن اور دریائے کنہار میں بھی پانی کے بہا ؤمیں اضافہ ہورہا ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران قدرتی آفات اور غیر معمولی بارشوں، طوفانوں کے تسلسل میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے اور حالیہ طوفانی بارشوں نے پچھلے کئی عشروں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ان بارشوں کے دوران بادل پھٹنے اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں تشویش ناک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موسمی تغیرات سے متعلق ماہرین کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے خدشات اندازوں سے زیادہ درست ثابت ہورہے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب کا آنا تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے تاہم گزشتہ چند برسوں سے خود گرمی کی شدت میں جس طرح اضافہ ہورہا ہے، یہاں تک کہ بالائی پہاڑی علاقوں میں بھی تیز گرمی پڑنے لگی ہے اورپھر جس طرح موسم صاف ہونے کی صورت میں گلیشیرز پھٹنے اور بارشوں کے دنوں میں بادل پھٹنے کا خوفناک سلسلہ شروع ہوا ہے، یہ کوئی معمول کی بات نہیں ہے۔ اس صورت حال اور اس سے جنم لینے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمارے ارباب اختیار کو بڑے پیمانے پر کام کرنے اور اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔

ماہرین کی طرف سے یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ انسانی آبادی بالخصوص بڑے صنعتی ممالک کی بعض منفی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، دھویں، کاربن اور گرین گیسز کے اخراج اور مشینوں اور انجنوں کی گرمائش کے باعث زمین کی حدت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور فضا کے اوزون کی سطح بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات نوٹ کیے جا رہے ہیں اور بدقسمتی سے ان تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے۔ جو ممالک دنیامیںماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں ملوث اور موسمیاتی تغیرات کے ذمہ دار ہیں وہ تو ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ گئے ہیں جبکہ پاکستان جیسے ممالک جن کا اس تباہ کاری میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، وہ سب سے زیادہ اس کے اثرات بد کو بھگت رہے ہیں۔ چند سال پہلے صنعتی ممالک نے ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے اورصنعتوں پر کچھ قواعدو ضوابط لاگو کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس کے بعد توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ موسمیاتی تغیرات پر قابو پانے میں مدد ملے گی مگر امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ نے بدترین خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقتدار میں آتے ہی ماحولیات سے متعلق عالمی معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا جس کے بعد جس کے بعد موسمی تغیرات سے نمٹنے کی عالمی کوششیں بے معنی ہوکر رہ گئیں۔ پاکستان میں آنے والی قیامت صغری پوری دنیا کے لیے بیداری کا پیغام ہے۔ اگر بڑی طاقتوں نے موسمی تغیرات سے نمٹنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات نہیں کیے تو اس کا نتیجہ اگلے چند برسوں کے اندر پوری دنیا میں وسیع تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی فورموں پر اپنا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرنا چاہیے اور عالمی طاقتوں کو نہ صرف پاکستان میں بارشوں سے ہونے والے نقصانات اور تباہ کاریوں کے ازالے میں تعاون کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے بلکہ موسمی تغیرات کا سبب بننے والے عوامل کے خاتمے کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ساتھ میں حکومت پاکستان کو ملک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے انتظامات میں بہتری اور جدت لانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ جو لوگ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، ان کی مدد اور بحالی کے کام میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں، پاک فوج اور امدادی اداروں کو باہمی کوارڈنیشن کے ساتھ مربوط طریقے سے کام کرنا چاہیے۔ غیر سرکاری تنظیموں بالخصوص اسلامی رفاہی اداروں کو بھی آگے بڑھ کر اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں بحیثیت مسلمان ہمیں مصیبت اور تکلیف کے ہر لمحے میں رجوع الی اللہ اور توبہ واستغفار کا بھی اہتمام کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے غضب سے ہمیشہ پناہ مانگنا اور اس کی عفو و رحمت کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔