ماحولیاتی تباہی اور دانستہ غفلت۔ احتساب ضروری ہے

وطن عزیز پاکستان اس وقت ایک خوف ناک ماحولیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ سنگین موسم کے خطرناک اثرات ملک بھر میں نظر آ رہے ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں بادل پھٹنے، گلیشئر پگھلنے اور سیلابی ریلوں سے شدید جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ وسیع علاقے میں بڑی تباہی ہوئی ہے جس سے پورا ملک اس وقت صدمے کی کیفیت میں ہے۔ خیبر پختونخوا میں صرف چند دنوں کے دوران بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے مختلف حادثات میں تین سو سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ سینکڑوں لوگ زخمی ہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں ضلع بونیر میں ہوئیں جہاں پورے کے پورے گاؤں سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔ اس وقت شمالی علاقوں میں امدادی کارروائیوں کی اشد ضرورت ہے جہاں پاک فوج کے مستعد جوان اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں جبکہ رضاکار تنظیموں کے اہل کار بھی ان کا ہاتھ بٹانے پہنچ رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سیلابی ریلے اب پنجاب کا رخ کر چکے ہیں جس سے میدانی علاقوں میں بھی سیلاب کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے ملک کے مختلف حصوں میں شدید بارشوں اور سیلاب کا الرٹ جاری کیا ہے اور شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ہم من حیث القوم اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کا براہ راست شکار ہیں۔ غیر معمولی بارشیں، کلاؤڈ برسٹ اور اچانک آنے والے سیلاب یہ سب قدرتی آفات ہیں تاہم ان سے رونما ہونے والی تباہی محض قدرتی عوامل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں انسانی غفلت اور لاپرواہی کا بھی بنیادی کردار ہے۔ ماہرین کے مطابق جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور دریاؤں و برساتی نالوں کے کناروں پر غیر محتاط تعمیرات نے ان آفات کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں جنگلات کا رقبہ دس فیصد بھی نہیں رہا جو کہ خطے میں سب سے کم ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق کسی ملک کا ستر فیصد سے زائد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ ملک کے جنگلات میں ہونے والی نمایاں کمی بدنظمی، بدعنوانی اور غیر ذمہ داری کے سنگین مسئلے کو اجاگر کرتی ہے جس کی طرف جنگی بنیادوں پر توجہ دینے اور لوگوں کی ہلاکتوں کا باعث بننے والے حکام کا درکار محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق سیلاب جیسے بحران سے نمٹنے کا اولین اصول فوری انتباہ اور انخلا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں امکانی خطرات کے باوجود حکام نے عوام کو بروقت متنبہ کیوں نہیں کیا؟ انخلا کی کوششیں کیوں نہیں کی گئیں؟ اس معاملے کو نظر انداز کرنا درست نہیں بلکہ متعلقہ افراد کا محاسبہ ضروری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کو اولین ترجیح دے۔ آخر ہنگامی حالات میں ریسکیو ٹیموں کو چوکس رکھنا اور ان کے لیے رسائی کو آسان بنانا اور راستوں کو ہموار رکھنا کس کا کا م تھا؟ اس وقت بھی خیبر پختونخوا، پنجاب اور دیگر ممکنہ ومتاثرہ اضلاع کے خطرے سے دوچار علاقوں میں اضافی نفری اور درکار وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ خطرے کے انتباہات کو ہر شہری تک ان کی مادری زبان میں پہنچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا جائے تاکہ کوئی بھی شخص معلومات کے فقدان کی وجہ سے ہلاک نہ ہو۔ سیلاب سے ممکنہ طورپر متاثر ہونے والے علاقوں سے لوگوں کا فوری انخلا یقینی بنایا جائے اور ان کے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کی جائیں۔

وقتی انتظامات کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات پر توجہ دیں۔ ہمیں ایک جامع اور طویل مدتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب قدرتی نظاموں میں مداخلت کی جاتی ہے تو ان کے منفی نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی سے زمین کا کٹاؤ بڑھ گیا ہے اور زلزلے اور سیلاب کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ اب ہمیں قومی سطح پر ایک فریضہ جان کر جنگلات اگانے اور تمام چھوٹے، بڑے شہروں میں شجرکاری شروع کرنی چاہیے بالخصوص پہاڑی ڈھلوانوں پر درخت لگانے کی مہم کا آغازکیا جائے اور غیر قانونی کٹائی کو سختی سے روک دیا جائے۔ اسی طرح شہروں میں نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانا اور برساتی نالوں پر غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ بڑے شہروں جیسے کہ راولپنڈی اور لاہور میں اربن فلڈنگ کا خطرہ اسی وجہ سے بڑھا ہے۔ ہمیں ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ بارش کا پانی ڈیموں یا زمین میں محفوظ ہو۔ حکومت تجاوزات کو ہٹانے کے لیے بلا امتیاز کارروائی کرے اور کسی بھی بااثر شخصیت یا گروہ کو استثنا نہ دے۔ اس کے علاوہ دریاؤں اور نالوں کے کناروں پر ممنوعہ تعمیراتی علاقوںکا تعین کیا جائے تاکہ سیلاب کے پانی کو بہنے کے لیے قدرتی راستہ ملے اور مستقبل میں کسی بھی طرح کی تباہی سے بچا جا سکے۔

اس وقت من حیث القوم ہمیں کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قدرتی آفات صرف عذاب نہیں ہوتیں بلکہ اکثر اوقات انسانوں کی بدعنوانی کا صلہ اور اخلاقی اور انتظامی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اس وقت خدانخواستہ بالاکوٹ میںدوبارہ زلزلے کا خطرہ موجود ہے لیکن غیر ذمہ دار حکام نے وہاں کی آبادی کو ایک فعال فالٹ لائن پر آباد کر رکھا ہے۔ نالائق حکام سائنسی شواہد اور خطرات کو دانستہ طور پر نظر انداز کرتے ہیں اور ایک ممکنہ قدرتی آفت کو انسانی ہاتھوں سے رونما ہونے والی شدید مصیبت اور مشکل میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایسی مصیبت کو محض گناہوں کی وجہ سے عذاب قرار دینا اور معاشرے کے عام لوگوں کے بارے میں بدگمانیاں پھیلانا کوئی معقول کام نہیں ہے۔ اہلِ علم کے مطابق مسلمانوں کو پہنچنے والی مصیبت کو محض عذاب قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ مصیبت میں جان گنوانے والے حدیث مبارکہ کی رو سے شہید ہیں۔ اس وقت دہشت گردی، معاشی مشکلات، غربت اور مہنگائی جیسے مسائل نے پہلے ہی لوگوں کو شدید مسائل سے دوچار کر رکھا ہے اور اب یہ موسمیاتی آفت ایک نئے چیلنج کے طور پر سامنے ہے۔ اس مشکل وقت میں ہمیں مایوسی سے بچنا چاہیے اور بحیثیت قوم مکمل عزم و استقلال کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے لیکن احتساب ضروری ہے۔ ہمارے پاس ایسے قوانین اور ادارے موجود ہیں جو احتساب، انصاف اور نظم و نسق کی بحالی میں معاون ہو سکتے ہیں، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قوانین کو صرف کاغذ پر نہ رہنے دیا جائے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں عدل، انفرادی و اجتماعی ذمہ داری نبھانے اور اپنے حصے کی محنت کا درس دیتی ہیں اور یہی وہ اصول ہیں جن کی روشنی میں ہمیں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ ہم اپنے دین کے اصولوں پر عمل پیرا ہوں اور یقین، توکل اور جدوجہد کا راستہ اختیار کریں تو بفضلہ تعالیٰ ہمیں موجودہ مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔