باجوڑ کی صورتحال

باجوڑ میں امن کیلئے جرگہ ممبران اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ معاہدے کے مطابق فائر بندی کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے اور علاقے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق جرگہ ممبران اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان اب تک مذاکرات کے سات دور ہو چکے ہیں جو کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے اور یوں بات چیت کا عمل ناکامی سے دوچار ہو گیا۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ باجوڑ کی تحصیل ماموند میں اس وقت کالعدم ٹی ٹی پی کے 1200 سے 1300 جنگجو موجود ہیں، جن میں لگ بھگ 400 کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ان جنگجووں کی موجودی نے سیکورٹی خدشات میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی آمد کے ساتھ ہی بدقسمتی سے پاکستان میں سرحد پار سے تربیت یافتہ دہشت گردوں کی امریکا کے چھوڑے گئے جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ حملے جاری ہیں اور ان حملوں میں رفتہ رفتہ پہلے سے زیادہ شدت اور جوش آیا ہے۔ اب پہلے سے زیادہ بے کھٹکے اوربغیر کسی خوف و ڈر کے دہشت گردوں کی جانب سے حملے ہو رہے ہیں اور ان حملوں میں افغان دہشت گردوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہوتی ہے۔ یوں تو یہ حملے افغانستان کے ساتھ لگنے والی پاکستان کی طویل سرحدی پٹی کے مختلف پوائنٹس سے ہو رہے ہیں، تاہم کچھ عرصے سے باجوڑ کے سرحدی علاقے کو ان خوارج نے اپنا محفوظ ٹھکانا بنا رکھا ہے اور یہ لوگ یہاں کی آبادی کے اندر محفوظ ٹھکانے بنا کر آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرکے فورسز کی چوکیوں، پولیس تھانوں، پوسٹوں اور نمایاں سیاسی و دینی شخصیات کو حملوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ نہ صرف کھلی دہشت گردی ہے بلکہ دین کے نام پر خوف و دہشت پھیلانے کی انتہائی مذموم اور بدترین شکل ہے۔ یہ ایک ایسی مارا ماری ہے جس کی کوئی سمت، منزل اور مقصد اور یہاں تک کہ کوئی جواز اور گنجائش نہیں۔ دینی نصوص میں ایسی ہی بے وجہ کی خونریزی کو فتنہ و فساد کہا گیا ہے، مگر ”چہ دلاور است دزدی کہ بکف چراغ دارد” کے مصداق اس بدترین فساد کو یہ خارجی دہشت گرد العیاذ باللہ جہاد کا مقدس عنوان دے کر مسلمانوں کا خون کرنے میں مصروف ہیں۔

ان خارجی دہشت گردوں کو پاکستان کی آئینی حدود کے اندر پنپنے کا کسی صورت کوئی موقع نہیں دیا جانا چاہیے اور ہماری بہادر افواج اور فورسز ان کے خاتمے کیلئے پر عزم بھی ہیں، تاہم ان کیخلاف کارروائی اور آپریشن اس لیے نہایت پیچیدہ ہے کہ دہشت گردوں نے علاقے کی سویلین آبادی اور پاکستانی عوام کے اندر گھس کر اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں، جو بذات خود ان دہشت گردوں کے انسانیت دشمن ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ اگر ان میں واقعی جرات و بہادری ہوتی یا ان میں انسانیت کی رمق بھی ہوتی تو وہ کبھی آبادی کے درمیان چھپ کر نہ رہتے اور آبادی کو آڑ نہ بناتے۔ وہ بزدلوں کی طرح آبادی میں چھپ کر وہاں سے وار کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس خطرناک اور انسانیت دشمن عمل سے بے گناہ آبادی بالخصوص علاقے کی پردہ دار خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں، ان میں انسانیت اور اخلاقی جرات ہوتی تو انہیں اس کی فکر ہوتی، مگر ان کے برعکس پاکستان کی فورسز کو یہ ساری باتیں پیش نظر رکھنا پڑتی ہیں اور انہیں قوم کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے، چنانچہ فورسز کی کوشش ہے کہ کسی طرح دہشت گرد آبادی سے الگ ہوکر مقابلے پر آئیں تو حساب بے باق کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فورسز نے اہل علاقہ اور جرگہ ممبران کو مسلسل انگیج کیا کہ وہ ان دہشت گردوں کو سمجھائیں اورپیغام دیں کہ وہ آبادی سے انخلا کریں تاکہ بے گناہ عوام اور خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو کوئی گزند اور نقصان نہ پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت، انتظامیہ، مقامی نمائندوں، معتبرین اور فورسز نے مسلسل سات بار ان کے ساتھ نشست رکھی اور انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے، جس کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ آپریشن اور مسلح تصادم ناگزیر ہوگیا ہے، تاہم یہ نہایت ضروری ہے کہ اگر یہ دہشت گرد علاقہ خالی کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تو آبادی کو محفوظ مقام کی طرف منتقل کر دیا جائے تاکہ آبادی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

یہ بہت ہی چیلنجنگ صورتحال ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ سوات اور مالاکنڈ کی طرح اس خونریزی اور دربدری کی نوبت بھی دہشت گردوں کی وجہ سے آ رہی ہے۔ بے گناہ عوام کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرکے فورسز، پولیس چوکیوں، تھانوں، اہم سیاسی و مذہبی شخصیات اور ریاستی اداروں کو نشانہ بنانا دہشت گردی تو ہے ہی، بزدلی کی بھی انتہا ہے۔ بہرحال سب سے بڑی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ اگر آپریشن ناگزیر ہو تو مقامی آبادی کو پہلے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔ ہمیں سوات اور مالاکنڈ کی ماضی کی تلخ یادیں نہیں دہرانا چاہئیں جہاں معصوم لوگ دہشت گردی اور آپریشن کے درمیان پس کر رہ گئے تھے۔ عوام کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور کسی بھی فوجی کارروائی میں اسے پہلی ترجیح دی جانی چاہیے۔

یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ افغان حکومت کو دو ٹوک انداز میں یہ پیغام دینا چاہیے کہ افغانستان کی سرزمین اگر دہشت گردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بنی رہی تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے امن اور ترقی کیلئے بھی تباہ کن ثابت ہو گی۔ افغان حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ خوارج کسی کے بھی دوست نہیں۔ ان کا ایجنڈا صرف اور صرف تباہی اور خونریزی ہے۔ اگر آج وہ پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں تو کل کو افغانستان کی حکومت اور عوام بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ باجوڑ کی موجودہ صورت حال محض ایک علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری ریاست کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اگر آج فیصلہ کن قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ ناسور مزید پھیل سکتا ہے۔ ہماری بہادر افواج، پولیس، اور دیگر ادارے اس چیلنج سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، مگر اس کے لیے سیاسی قیادت، عوام اور میڈیا کو بھی ایک پیج پر آنا ہوگا۔ دہشت گردی کے خاتمے کا ہدف تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب ہم اجتماعی طور پر یہ طے کر لیں کہ پاکستان کے آئین، قانون اور امن کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے کسی بھی گروہ کے ساتھ نہ نرمی ہوگی اور نہ سمجھوتہ۔باجوڑ اور دیگر سرحدی علاقوں میں امن کا قیام صرف وہاں کے باسیوں کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ یہ جنگ ہماری ہے اور اس کا اختتام ان دہشت گردوں کی شکست پر ہی ہونا چاہیے۔