غزہ میں صہیونی درندگی کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے ،تازہ حملوں میں نڈر اور بہادر صحافی انس الشریف اور ان کے 4ساتھیوں سمیت مزید 61فلسطینی شہید اور 363زخمی ہوگئے۔ قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ نے کہا ہے کہ غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کے قریب اسرائیلی ٹارگٹڈ حملے میں الجزیرہ کے پانچ صحافی شہید ہو گئے۔ الجزیرہ کی خبر کے مطابق نامہ نگار انس الشریف اور محمد قریقع کے علاوہ کیمرہ مین ابراہیم ظہیر، محمد نوفل اور مومن علیوا ہسپتال کے مرکزی دروازے پر صحافیوں کے لیے بنے ایک خیمے میں تھے جب اس خیمے کو نشانہ بنایا گیا۔الجزیرہ نے ایک بیان میں کہا کہ ٹارگٹڈ قتل آزادی صحافت پر ایک اور صریح اور پہلے سے سوچا گیا حملہ تھا۔
الجزیرہ کے بہادر رپورٹر انس جمال الشریف ان بہادر اور جرأت مند صحافیوں میں سے تھے جنہوں نے اس دور میں اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر ظلم کو بے نقاب کرنے اور مظلوموں کی آواز دنیا تک پہنچانے کی حقیقی صحافتی ذمہ داری کو نبھاکر دنیا بھر کے صحافیوں کے لیے ایک روشن مثال قائم کردی اورایک ایسی دہشت گرد ریاست کا مقابلہ کیا جس نے حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ صحافیوں کو نشانہ بنایا اور حق و صداقت کی آواز کا گلا گھونٹے کی کوشش کی ہے۔ انس الشریف شہید شدید بمباری کے دوران اپنی جان ہتھیلی پر رکھے کیمرے کے سامنے آتے۔ ان کے ہاتھ میں مائیکروفون گویا ایک ایسی ڈھال ہوتا جو آخری دم تک سچائی کو جھوٹ کی یلغار سے بچانے کے لیے تیار رہتا۔ انس کو قابض اسرائیل کی کھلی دھمکیاں اور بدنام کرنے کی مہمات کبھی پیچھے نہ ہٹا سکیں۔ وہ ہمہ وقت اپنی قوم کا درد لمحہ بہ لمحہ دنیا تک پہنچاتے رہے۔ یہ سفر اس وقت تھم گیا جب قابض اسرائیل نے انہیں اور ان کے چار ساتھیوں کو ایک منظم اور براہِ راست ایک بزدلانہ حملے میں شہید کر دیا۔ حملے کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ اس نے انس الشریف پر حملہ کیا تھا، ٹیلی گرام پر پوسٹ کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے الزام لگایا کہ انہوں نے حماس میں دہشت گرد سیل کے سربراہ کے طور پر کام کیا تھا جبکہ یہ امر پوری دنیا کو معلوم ہے کہ انس الشریف کا اصل جرم یہ تھا کہ اس نے اپنی بہادرانہ رپورٹنگ کے ذریعے غزہ میں صہیونی فوج کی انسانیت سوز کارروائیوں کو بے نقاب کیا اور صہیونیت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھایا جس کے نتیجے میں آج پوری دنیا ناجائز و غاصب صہیونی ریاست اسرائیل پر لعنت بھیج رہی ہے اور یورپی ممالک بھی یکے بعد دیگر فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ انس الشریف اور ان کے ساتھیوں نے اپنی جانیں اس راستے پر قربان کردی ہیں جس راستے پر ان کی بہادر اور حریت پسند فلسطینی قوم گزشتہ پون صدی سے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس لیے وہ بلاشبہ نہ صرف فلسطینی قوم بلکہ پوری امت مسلمہ کے ہیرو ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے انس الشریف اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرکے غزہ پر قبضہ کرنے کے اپنے شیطانی منصوبے کے خلاف موثر عالمی ردعمل کا غصہ اتارنے کی کوشش کی ہے اور شاید اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ اگلے چند ہفتوں کے اندر غزہ میں زمینی کارروائیوں کے دوران فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی مزاحمت سے صہیونی فوج کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات کو چھپایا جاسکے مگر یہ اسرائیل کی خوش فہمی ہے کیونکہ اب تک کی جنگ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ فلسطینیوں کی آواز کو دبانے کی اس کی ہر کوشش کا الٹا نتیجہ ہی برآمد ہوا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اب تک 200سے زائد صحافیوں کو جن میں اکثریت فلسطینیوں کی تھی ، باقاعدہ نشانہ لے کر شہید کیا اور اس وقت غزہ میں کیمرہ اٹھانا ہتھیار اٹھانے سے زیادہ خطرناک ہوچکا ہے مگر اس کے باوجود فلسطینی صحافیوں نے اپنی قوم پر بیتنے والی قیامت سے دنیا کو آگاہ کرنے کے مشن کو ترک نہیں کیا بلکہ وہ اپنی جان پر کھیل کر غزہ میں پیش آنے والے ایک ایک واقعے کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔اگر کوئی ایک صحافی اس راہ میں شہید ہوجاتا ہے تو دوسراآگے بڑھ کر اس کا قلم اور علم اٹھاتا ہے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ شہید انس الشریف کا قلم اور کیمرا ان کے نوجوان بھتیجے مصعب الشریف نے سنبھال لیا اور اپنے شہید چچا کی وصیت پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ وصیت جس نے دنیا کے ہر صاحب دل انسان کو آبدیدہ کردیا ۔ اپنی شہادت سے چند لمحے قبل انس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پیغام چھوڑا تھا جس میں لکھا : ”یہ میری وصیت اور میرا آخری پیغام ہے۔ اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں تو جان لیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ میں نے اپنی قوم کے لیے اپنی ہر کوشش کی اور پوری طاقت لگا دی۔ میری امید تھی کہ اللہ میری زندگی بڑھا دے تاکہ میں اپنے گھر اور پیاروں کے ساتھ اپنے اصل شہر عسقلان لوٹ سکوں، مگر اللہ کی مرضی مقدم رہی۔ میں نے درد کے ہر رنگ کو جھیلا، دکھ اور نقصان کو بارہا چکھا، مگر کبھی سچ کو مسخ کیے بغیر بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ میں فلسطین کو، اس کے معصوم بچوں کو، اس کی مظلوم عورتوں کو جنہیں سکون اور حفاظت کا لمحہ نصیب نہ ہوا آپ کے سپرد کرتا ہوں ۔ میں آپ کے سپرد کرتا ہوں اپنی بیٹی شام کو، اپنے بیٹے صلاح کو، اپنی ماں اور اپنی شریکِ حیات کو … اگر میں مروں تو ثابت قدم مروں گا، اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے شہداء میں شامل کرے اور میرا خون میری قوم کی آزادی کا چراغ بنے۔ غزہ کو نہ بھولنا…اور مجھے اپنی دعا میں یاد رکھنا۔” یاد رہے کہ2023ء میں جبالیا کیمپ میں انس الشریف کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں ان کے والد شہید ہو گئے تھے۔ ان کے ساتھی محمد قریقع شہید بھی اس جنگ میں الجزیرہ کا حصہ بنے۔ اس سے قبل وہ ایک انسانی حقوق تنظیم میں محقق کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ان کی والدہ گزشتہ سال الشفا میڈیکل کمپلیکس کے محاصرے کے دوران اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئی تھیں۔
یہ صرف ان شہداء کی نہیں بلکہ غزہ کے ہر باشندے کی کہانی ہے کہ دنیا کی مبغوض اور ملعون ترین قوم یہود کے خون آشام بھیڑیوںکی درندگی اور بہیمیت نے غزہ کے باشندوں کو وہ دکھ اور زخم دیے ہیں جو عشروں تک بھلائے نہیں جاسکیں گے اور جو عصر حاضر کے عالم انسانیت کے چہرے پر لگے وہ بدنما داغ ہیں جو صدیوں تک مٹائے نہیں جاسکیں گے۔ ہٹلر دنیا کی تاریخ کا بڑا ظالم مشہور ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے انسانیت کے خلاف بہت بڑے جرائم کیے مگر آج صہیونی بھیڑیوں کی درندگی اور بہیمیت کو دیکھ کربہت سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس نے صہیونیوں کے ساتھ جو کیا تھا، شاید درست ہی کیا تھا!