عالمی تعلقات اور قضیۂ فلسطین

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان الاسکا میں ہونے والی حالیہ ملاقات نے عالمی سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ پیوٹن یوکرین میں جنگ ختم کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ ایک ایسی سہ فریقی ملاقات کے خواہش مند ہیں جس میں یوکرینی صدر زیلنسکی بھی شامل ہوں۔ یہ خیال دراصل مستقبل میں ایک نئے عالمی منظرنامے کا اشارہ ہے۔ اس موقع پر اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور روس کے درمیان امن کی بات چیت عالمی سطح پر پائی جانے والی کشیدگی، جنگوں اور نسل کشی کے مظاہر کی روک تھام کے لیے بھی مفیدثابت ہوگی ؟دراصل امریکا اور روس کے درمیان تعلقات کی بہتری اور دونوں ممالک کی اعلی قیادت اور حکمرانوں کے درمیان ہونے والی ملاقات اور اس سے نکلنے والے ممکنہ نتائج کو صرف یوکرین تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے دور رس اثرات مشرق وسطیٰ اور بین الاقوامی تعلقات پر مرتب ہوں گے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب عالمی طاقتوں کی ترجیحات میں تبدیلی آ رہی ہے اور صہیونیوں کے ظلم و ستم سے اب ہر ملک اور خطے کے عام لوگ آگاہ ہوچکے ہیں، امن کا دائرہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان محدود نہیں رہا۔ یوںاگرچہ اس ملاقات سے ایک طرف امید کی کرن پیدا ہوئی تاہم وہیں دوسری طرف بعض ممالک کے لیے نئے چیلنج بھی سامنے آئے ہیں، پاکستان بھی امریکی پالیسیوں سے اسی طرح متاثر ہوسکتاہے جیسے بھارت پر ممکنہ اضافی امریکی ٹیرف کی دھمکی سے ایک نئی صورت حال ظاہر ہورہی ہے۔

روس اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ سرد جنگ کے زمانے سے ہی کشمکش اور تصادم سے عبارت رہی ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک نے بعض مواقع پر مشترکہ مفادات کے لیے تعاون کیا ہے، لیکن ان کا بنیادی مقابلہ ہمیشہ سے عالمی وسائل پر دسترس، اپنی کرنسی کی بالادستی اور عالمی امور پر اجارہ داری قائم کرنے پر رہا ہے۔ ان تاریخی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ دونوں طاقتیں آسانی سے کسی دیرپا امن پر سمجھوتا کر لیں گی۔ دونوں کے درمیان گہرے اختلافات اب بھی موجود ہیں، خاص طور پر جب بات اپنے اپنے اتحادیوں کے مفادات کے تحفظ کی ہو۔ اس تناظر میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ امریکا چین کے عالمی سیاست، تجارت، اقتصادیات اور دفاعی امور میں بڑھتے ہوئے کردار کو کس حد تک نظرانداز کر پائے گا۔ چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ایک ایسی حقیقت ہے جو روس اور امریکا دونوں کیلئے ایک پیچیدہ چیلنج ہے اور یہ معاملہ امکانی طورپر ان دونوں متحارب طاقتوں کے تعلقات کی سمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

چین اور اس کے قریبی اتحادی ممالک کے ساتھ معاملات کے علاوہ مشرق وسطی کے تناظر میں امریکی اور روسی تعلقات کی بہتری یا خرابی کے اثرات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان تعاون بڑھتا ہے تو امریکا کو مشرق وسطی میں زیادہ یکسوئی کے ساتھ توجہ دینے کا موقع ملے گا۔ اس صورت میں اسرائیل کو امریکا کی غیر مشروط حمایت مزید مضبوط ہوگی، جو فلسطینی ریاست کے قیام کی امیدوں کو مزید دھندلا دے گی۔ اس کے برعکس اگر یہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوگا، جس کا نتیجہ مشرق وسطی میں پراکسی وار کی شدت میں اضافے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس وقت اسرائیل کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کیلئے نئے منصوبوں کی منظوری اور غزہ پر جاری وحشیانہ حملے اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ فوری حل کی توقع نہیں رکھتا۔ اسرائیل کی سخت گیر حکومت جس کو امریکا کی مکمل سیاسی اور عسکری حمایت حاصل ہے، کسی بھی امن فارمولے کو آسانی سے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب انسانیت کا عالمی مجرم نیتن یا ہو اور اس کی ذلیل و بدقماش کابینہ گریٹر اسرائیل کے قیام کی بکواس کررہی ہے، سعودی عرب، مصر، اردن، شام اور لبنان کو متحد ہونے اور ترکیہ اور پاکستان کا ساتھ لے کر غزہ کے مسئلے کو انسانی، اخلاقی اور اسلامی اخوت کی بنیادوں پر حل کرنے پر مکمل زور صرف کردینا چاہیے۔

مصر کی بے حس ا ور سنگ دل قیادت نے بھی گریٹر اسرائیل کے معاملہ پر اب چونکنے کی اداکاری کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر غزہ مسلم امہ کے ہاتھ سے نکل گیا تو کل مصر کو بچانے کیلئے بھی کوئی آگے نہیں آئے گا۔ مسلم امہ کی قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عدل کا اصول یہ تقاضا کرتا ہے کہ مظلوم کی حمایت کی جائے اور ظالم کا ہاتھ روکا جائے۔ فلسطین میں جاری ظلم اور نسل کشی کے دوران عالمی طاقتوں کا رویہ نہ ہی عام انسانی اخلاق کے مطابق ہے اور نہ ہی یہ عالمی تعلقات کے ساتھ مطابقت رکھتاہے۔ یہ رویہ ہر تہذیب کے امن و انصاف سے متعلق اصول کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کی غیر قانونی آباد کاریاں اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف جبر و تشدد جاری ہے۔ ایسے میں عالمی امن صرف امریکا اور روس کے تعلقات کی بہتری سے مشروط نہیں، بلکہ اس کا براہ راست تعلق فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات کے منصفانہ حل سے ہے۔ جب تک فلسطین کا مسئلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل نہیں ہوتا اور اسرائیلی قبضے کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس وقت تک عالمی امن محض ایک خواب رہے گا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور روس کے درمیان تعلقات کی بہتری بین الاقوامی استحکام کیلئے ضروری ہے، لیکن مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے صرف یہ کوششیں کافی نہیں ہیں۔ اس خطے کا استحکام دراصل اسرائیل فلسطین تنازع کے منصفانہ اور پائیدار حل سے وابستہ ہے۔ اسرائیل کی حالیہ جارحیت، اس کی توسیع پسندانہ پالیسیاں اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور دیگر یورپی ممالک کی بڑھتی ہوئی حمایت ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن اس کے لیے مزید عالمی دباؤ کی ضرورت ہے۔ عالمی امن کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ عالمی طاقتیں یوکرین کے مسئلے کے ساتھ ساتھ غزہ اور مغربی کنارے میں جاری ظلم و جبر کا نوٹس لیں اور اسرائیل پر ایک منصفانہ حل قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ بصورت دیگر فلسطین میں جاری بدامنی ایک بڑے عالمی تنازع کی وجہ بن سکتی ہے اور پھر یہ امن کی تمام کوششیں بے معنی ہو جائیں گی۔