رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
غزہ کی زمین ایک بار پھر عالمی سفارت کاری کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی جارحانہ حکمت عملی اور عسکری دباو ہے تو دوسری طرف فلسطینی مزاحمتی جماعتیں شدید انسانی بحران کے سائے تلے کسی قابلِ قبول معاہدے کی تلاش میں ہیں۔
مصر اور قطر کی ثالثی سے تیار کی جانے والی 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز نے موجودہ صورتحال میں نئی ہلچل پیدا کی ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے ابھی تک اس پر حتمی جواب نہیں دیا مگر فلسطینی فریق نے اصولی طور پر اسے قبول کر لیا ہے۔ ذیل میں ہم اس پیشکش کی تفصیلات، ممکنہ اثرات اور خطرات کا احاطہ کریں گے۔
معاہدے کی بنیادی شرائط
الجزیرہ اور دیگر بین الاقوامی ذرائع کے مطابق تجویز میں کہا گیا ہے کہ حماس اور دیگر فلسطینی دھڑے 10 اسرائیلی قیدیوں (زندہ) کو رہا اور 18 لاشوں کو مرحلہ وار صہیونی حکام کے حوالے کریں گے۔ اس کے بدلے میں اسرائیل 1700 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ ان میں 45 ایسے اسیر ہیں جنہیں عمر قید کی سزا دی گئی ہے اور 15 دیگر طویل المدتی سزاوں والے قیدی شامل ہیں۔ معاہدے کے تحت جنگ بندی 60 دن تک برقرار رہے گی۔ پہلے دن 8 اسرائیلی قیدی رہا کیے جائیں گے جبکہ مزید 2 کو جنگ بندی کے پچاسویں دن آزادی ملے گی۔ اسی طرح اسرائیلی مقتول فوجیوں کی لاشیں بھی مرحلہ وار واپس کی جائیں گی۔ فلسطینی قیدیوں میں سے زیادہ تر (تقریباً 1500) وہ ہیں جنہیں اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیا تھا۔ تجویز کے مطابق اسرائیلی فوج سرحد سے 1000 میٹر اور شہری آبادی سے 1200 میٹر پیچھے ہٹے گی تاکہ شمالی اور جنوبی غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل ممکن ہوسکے۔
تاہم اسرائیل نے بیت حانون اور الشجاعیہ جیسے حساس مقامات پر اپنی فوج کو اسی فاصلے پر رکھنے پر اصرار کیا ہے جسے حماس نے انسانی بحران کم کرنے کے لیے وقتی طور پر قبول کر لیا۔ یہ شرط اس لیے اہم ہے کہ غزہ میں اس وقت خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید کمی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارے بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ اگر فوری امداد نہ پہنچی تو بڑے پیمانے پر قحط اور وبائیں پھیل سکتی ہیں۔ دوسری طرف قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں حماس نے دیگر فلسطینی دھڑوں کو بھی شریک کیا تاکہ یہ تاثر نہ ملے کہ صرف ایک جماعت اپنے فیصلے مسلط کر رہی ہے۔ مزاحمتی قیادت جانتی ہے کہ اسرائیل اور بعض مغربی حلقے اکثر حماس پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پورے فلسطینی عوام کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اس بار اجتماعی شمولیت کا مقصد داخلی اتحاد کو برقرار رکھنا اور کسی ممکنہ ناکامی کی صورت میں الزام تراشی سے بچنا ہے۔
اسرائیلی پوزیشن اور داخلی تضادات
اسرائیل نے تادم تحریر اس تجویز کو باضابطہ طور پر قبول یا مسترد نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے ان سطور کی اشاعت تک اس کا موقف بھی سامنے آجائے۔ تاہم اسرائیلی میڈیا اور فوجی ذرائع کے مطابق فوجی قیادت غزہ شہر پر بڑے پیمانے پر قبضے کی تیاری کر رہی ہے۔ ویب سائٹ ’والا‘ کے مطابق تقریباً 80 ہزار فوجی اس آپریشن میں شریک ہوں گے۔ خود اسرائیلی فوجی ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ شہر پر قبضہ کرنا نہ صرف پیچیدہ بلکہ اسرائیلی فوج کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔ مزید یہ کہ اسرائیلی نشریاتی ادارے ’کان‘ نے خبر دی کہ چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب کی عسکری سوچ اب بھی جارحیت کی طرف مائل ہے۔ یہاں ایک اہم تضاد موجود ہے: ایک طرف اسرائیل مذاکرات کو طول دے کر سفارتی دباو کم کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف داخلی سیاست میں وزیرِاعظم اور فوجی قیادت پر یہ دباو بڑھ رہا ہے کہ وہ ”فیصلہ کن فتح“ حاصل کریں۔ اسرائیل کے اندر بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہورہے ہیں جن میں جنگی پالیسی پر تنقید کی جا رہی ہے۔
بین الاقوامی ثالثی اور امریکی کردار
اِس معاہدے کی پشت پر مصر اور قطر کی کوششیں نمایاں ہیں لیکن اصل ضمانت امریکا دے رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس تجویز کو اپنی حمایت فراہم کی ہے۔ واشنگٹن کی دلچسپی دو وجوہات سے ہے: ایک تو یہ کہ وہ خطے میں کشیدگی کم کر کے اپنے سفارتی اثر کو بڑھانا چاہتا ہے اور دوسرا یہ کہ انتخابات کے قریب آ کر ٹرمپ کو ’امن قائم کرنے والے‘ رہنما کے طور پر پیش کیا جائے۔ تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکا کی ضمانت زیادہ دیرپا نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر اسرائیل اندرونی دباو کے تحت دوبارہ جنگ چھیڑ دے تو واشنگٹن کے پاس دباو ڈالنے کے محدود ذرائع ہیں۔ دوسری طرف غزہ میں انسانی بحران روز بہ روز سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق لاکھوں افراد کو خوراک اور پانی تک رسائی نہیں ہے۔ اسپتالوں میں ادویات ناپید ہیں اور بجلی کی شدید قلت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے اسرائیلی شرائط پر جزوی طور پر لچک دکھائی۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اگرچہ کچھ نکات مثالی نہیں لیکن شہریوں کو بھوک اور بیماری سے بچانے کے لیے یہ اقدام ضروری ہے۔
متنازعہ نکات: موراغ کوریڈور
ایک بڑا اختلافی مسئلہ ’موراغ کوریڈور‘ ہے جہاں اسرائیل عارضی یا مستقل فوجی موجودگی برقرار رکھنے پر زور دے رہا ہے۔ حماس اسے مکمل انخلا کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔ اس نکتے پر دونوں فریقوں کے مابین شدید اختلاف ہے اور یہی مستقبل کے مذاکرات کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔
ممکنہ نتائج اور خطرات
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ معاہدہ طے پا گیا تو اس کے کئی ممکنہ اثرات ہوں گے: ٭انسانی ریلیف: فوری طور پر امداد پہنچنے لگے گی اور بھوک و بیماری سے اموات میں کمی آئے گی۔ ٭سیاسی اثرات: حماس اپنی عوام میں یہ تاثر دے سکے گی کہ اُس نے جدوجہد کے باوجود قیدیوں کو رہا کروایا اور شہریوں کو ریلیف دلایا۔ ٭اسرائیل کی مشکلات: قیدیوں کی رہائی اسرائیل میں داخلی سیاسی بحران پیدا کرسکتی ہے جہاں بعض حلقے سخت گیر رویہ چاہتے ہیں۔ ٭جنگ کا خطرہ باقی: چونکہ مستقل جنگ بندی کا وعدہ تحریری شق کا حصہ نہیں اِس لیے 60 دن کے بعد دوبارہ تصادم کا خطرہ برقرار ہے۔
رائٹرز، گارڈین اور اے پی سمیت کئی ذرائع نے اس معاہدے کو ’اب تک کا سب سے بہتر آپشن‘ قرار دیا ہے تاکہ خونریزی روکی جاسکے۔ تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے قبولیت یا انکار کا فیصلہ سب کچھ بدل سکتا ہے۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ بھی اس تجویز کی حمایت کر رہے ہیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیلی دباو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اگر اسرائیل نے غزہ شہر پر حملے کی کوشش کی تو یہ مذاکرات ناکام ہو سکتے ہیں۔ غزہ کی موجودہ صورتحال ایک ایسے نکتے پر آ گئی ہے جہاں انسانی بحران اور عسکری دباو نے سب کو نئی حکمت عملی پر مجبور کر دیا ہے۔ حماس اور دیگر دھڑوں نے مجوزہ 60 روزہ جنگ بندی کو قبول کر کے اپنی سیاسی لچک اور زمینی حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ آیا اسرائیل اس موقع کو استعمال کر کے جنگ کو روکنے پر راضی ہوگا یا ایک بار پھر طاقت کے ذریعے فیصلہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ فی الحال امید اور اندیشے دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک طرف ہزاروں زندگیاں اس معاہدے پر منحصر ہیں، دوسری طرف جنگی منصوبے اور داخلی سیاست کسی بھی وقت حالات کو پلٹ سکتے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگلے چند دن غزہ کے مستقبل اور خطے کی سیاست کے لیے فیصلہ کن ہوں گے۔
تاہم غزہ کے مقامی صحافی، اہل قلم اور سوشل میڈیا صارفین دعاوں کے ساتھ اپیلیں بھی کررہے ہیں کہ اس بار مذاکرات بارآور ہوکر کسی معاہدے پر منتج ہوں تاکہ اہل غزہ کو سکھ کا سانس نصیب ہو۔
