غزہ پر صہیونی تسلط کا منصوبہ اور مصر کا شرم ناک کردار

غزہ کی صورتِ حال سے متعلق اطلاعات کے مطابق، صہیونی دہشت گرد ریاست کی ظالم قیادت اور انسانیت کے مجرم نیتن یاہو نے غزہ پر مکمل عسکری قبضے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں لاکھوں انسانوں کا محاصرہ بدستور جاری ہے اور بھوک، پیاس اور وحشیانہ حملوں کی وجہ سے شہید ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس انسانیت سوز ظلم کے خلاف عالمی سطح پرعوام کی طرف سے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ تاہم، افسوس ناک امر یہ ہے کہ عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب میں قیادت کی سطح پراس جانب سے مکمل خاموشی دکھائی دیتی ہے جو فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ انسانیت کے مجرم نیتن یاہو کے اعلان کے جواب میںفسطینی مزاحمت کار جماعت حماس نے اسرائیلی عزائم کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے اسرائیل کے لیے غزہ پر مکمل تسلط بہرحال آسان نہیں ہوگا۔

صہیونی عزائم اور اس کے پس پردہ حقائق کو تاریخی اور معاشی عوامل کے ذریعے آسانی سے سمجھا جاسکتاہے۔ قبضے کا تعلق مذہبی تشریحات کی بجائے لوٹ مار اور وسائل پر تسلط سے ہے اور مغرب کی جدید تہذیب بھی بالادستی اور تسلط کا مزاج رکھتی ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں مصر کے ساتھ 35 ارب ڈالر کا گیس معاہدہ کیا ہے، جو بظاہر ایک تجارتی معاہدہ ہے لیکن اس کے پس پردہ حقائق کچھ اور ہی بیان کیے جارہے ہیں۔ اول تو یہ کہ ایسے معاہدے عموماً بڑی طاقتوں کی جانب سے کمزور ریاستوں کی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ امریکا نے بھی اسی طرز کے معاہدوں کے ذریعے کئی عرب ممالک کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ اس تناظر میں اسرائیل اور مصر کے گیس معاہدے کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے خون پر سمجھوتہ کرتے ہوئے انہیں اسرائیل کے ہاتھ فروخت کرنے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور یہ سلسلہ شریف مکہ کی غداری اور خلافتِ عثمانیہ کے سقوط میں عرب قوم پرست تحریک اور اور نام نہاد آزادی اور جمہوریت کی تحریکوں سے جڑا ہوا ہے۔ ثانیاًیہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گیس کے یہ ذخائر دراصل غزہ ہی کی سرزمین میں موجود ہیں جنھیں صہیونی ریاست اپنی ملکیت قرار دے کر ان سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس طرح کی صورتِ حال میں عالمی برادری کی خاموشی اور بالخصوص مسلم دنیا کا لاتعلقی کا رویہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ دوسری جانب غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف برازیل، کولمبیا، یونان، جنوبی افریقا اور اسپین جیسے ممالک کے عوام کھل کر سامنے آئے ہیں اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جاپان میں عوامی سطح پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ اس کے علاوہ چین نے بھی اسرائیل کے ‘خطرناک اقدامات’ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام کو پائیدار حل قرار دیا ہے۔ چین کے اس مؤقف کے بعد اسرائیل میں چین مخالف ماحول پایا جاتا ہے اور اس نے اپنی عسکری تنصیبات پر چینی ساختہ گاڑیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح پر بڑھتا ہوا دباؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست اپنی سفاکیت جاری نہیں رکھ سکتی۔

ان حالات میں جب اسرائیل کی جانب سے غزہ پر قبضے کا اعلان کیا گیا ہے، حماس کی جانب سے مزاحمت جاری رکھنے کا فیصلہ فلسطینی عوام کی تاریخی جدوجہد کے لیے امید کا شاید آخری سہارا ہے۔ اگر مزاحمت برقرار رہی اور اس کا دائرہ وسیع ہوگیا تو اس کے نتیجے میں شدید جنگی حالات پیدا ہوں گے اور قابض قوتوں کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ حماس نے اعلان کیاہے کہ غزہ پر قبضے کے منصوبے میں شریک ممالک کو قبضے کا حصہ سمجھاجائے گا۔ یہ صرف فلسطین اور غزہ کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے اثرات عالمی سطح پر دیکھے جا سکتے ہیں، اور خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ گٹھ جوڑ کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے خود اس بات کی تصدیق کی کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ میں اسرائیلی ہتھیار استعمال کیے تھے۔ نیتن یاہو نے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ بھارت نے ‘آپریشن سندور’ میں اسرائیلی ہتھیاروں، بشمول مشترکہ طور پر تیار کردہ ‘باراک 8’ دفاعی نظام، کا استعمال کیا۔ یہ گٹھ جوڑ محض ماضی تک محدود نہیں بلکہ آج بھی جاری ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق، پاک فضائیہ نے لاہور کے مناواں علاقے میں ایک بھارتی جاسوس ڈرون کو مار گرایا، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ اشتراک اب بھی برقرار ہے۔ بھارتی فضائی اڈوں پر ہائی الرٹ کی اطلاعات ہیں جبکہ پاک فضائیہ کو کسی بھی بھارتی جارحیت کے جواب میں بھرپور جوابی حملوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ نیتن یاہو اور بھارتی وزیراعظم مودی دونوں مل کر پاکستان کے خلاف جارحیت کے نئے امکامات کی جستجو میں ہیں، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسرائیل کی دہشت گردی اور جارحیت صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ وہ اپنے علاقائی اتحادیوں کے ذریعے دیگر مسلم ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔

مذکورہ بالا صورتِ حال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غزہ پر اسرائیلی قبضہ محض ایک فوجی آپریشن نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جس میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کی معاشی اور سیاسی خود مختاری کو ختم کرنا شامل ہے۔ اس منصوبہ میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جو بظاہر ان کے مخالف ہیں لیکن پس پردہ وہ ان سے مالی فوائد حاصل کرتے ہوئے ان کے ساتھ اقتصادی معاہدے کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں مزاحمت ہی وہ واحد راستہ ہے جو فلسطینیوں کے وجود کی بقا کا ضامن ہے۔ دنیا بھر کے مظلوم اقوام اور انسان دوست لوگوں کی جانب سے حمایت کے باوجود اگر عالم اسلام کی خاموشی برقرار رہی تو یہ ظلم ہوگا اور اس کے نتائج آئندہ نسلوں کو بھی بھگتنا ہوں گے۔ یہ وقت عالم اسلام کے لیے بیداری کا ہے۔ مسلم امہ کو چاہیے کہ وہ سیاسی، معاشی اور سفارتی سطح پر متحد ہو کر فلسطینی عوام کی حمایت کرے اور صہیونی ریاست کی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط اور واضح موقف اختیار کرے۔ خواہ اس یہ جارحیت غزہ میں ہو یا بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ہو۔ یہ محض غزہ کا نہیں بلکہ عالم اسلام اور مزید یہ کہ تمام انسانیت کا مسئلہ ہے اور صہیونی لعنت سے پوری دنیا کو نجات دلانے کے لیے اقوامِ عالم کے درمیان اتحاد و اتفاق رائے پیدا کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں مصر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی معاہدہ عالم اسلام کی وحدت پر مزید کدال چلانے کے مترادف ہے۔ اس لیے مصری عوام کو ظالم سیسی کے خلاف بغاوت کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کیونکہ جب تک مسلم امہ میں اتحاد کا فقدان رہے گا، عالمی سطح پر وہ ایک قوت کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آ سکے گی۔