اطلاعات کے مطابق پاکستان کے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے امریکا میں گفتگو کرتے ہوئے دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ ہم ایک جوہری قوت ہیں لہٰذا ہمیں ڈبونے کی کوششوں سے گریز کیا جائے۔ اگر پاکستان کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ہمارا ردعمل طے ہے اور ہم اپنے ساتھ آدھی دنیا کو لے کر ڈوبیں گے۔ پاکستان کے سپہ سالار کے اس بیان کو پوری دنیا میں نہایت اہمیت دی گئی ہے کیوں کہ اس بیان میں بھارت کو براہِ راست جبکہ اسرائیل کو بالواسطہ دھمکی دی گئی ہے اور اس کی وجہ واضح ہے کہ یہ دونوں ہی ملک پاکستان کے خلاف مسلسل شرانگیزی، فتنہ پردازی اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ بھارت فتنہ خوارج اور فتنہ ہندوستان کے ذریعے اسرائیل کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے جس کا جواب پاکستان کسی بھی موقع اور میدان میں دے سکتا ہے۔
پاک فوج کے سپہ سالار کے امریکا میں دیے گئے بیان کو خطے کی صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ بھارت کی مودی سرکار کے قطعی غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کی وجہ سے عالمی امن کسی بھی وقت داؤ پر لگ سکتا ہے جبکہ اس کی حماقتوں کا سلسلہ اب بھی تھمتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے مابین شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جس کی وجہ مودی حکومت اور اس کے اندھے پیروکار ہیں جو آر ایس ایس کے فسادی ایجنڈے یعنی ہندوتوا کا خطے میں زبردستی نفاذ چاہتے ہیں لیکن دوسری جانب عالم یہ ہے کہ ان کی حکومت اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے شعبدہ بازیوں میں مصروف ہے کیوں کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ تجارتی محصولات (ٹیرف) نے اس کی معیشت پر شدید دباؤ ڈال دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے دیے گئے جوابی بیانات نے بھارت میں ایک خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے لہٰذا ایسی فضا میں مودی اور اس کے چیلوں سے کسی نئی حماقت کا ارتکاب خلافِ قیاس نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مئی کے مہینے میں پاکستان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد مودی حکومت کی پاکستان مخالف پالیسی اور سیاسی کھیل اسے مہنگا پڑ رہا ہے۔ بھارتی حکومت اپنے عوام کی توجہ معاشی مسائل اور اندرونی خلفشار سے ہٹانے کے لیے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف جنگی فضا بنا رہی ہے۔ اسی پس منظر میں، پاکستان کے فیلڈ مارشل آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے دوبارہ کوئی جارحیت کی تو پاکستان کا جواب پہلے سے کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ اس بیان کے بعد بھارت کے میڈیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اب کی بار بھارت کے محض دفاعی نہیں بلکہ اقتصادی اور تجارتی مراکز کو بھی بھرپور طریقے سے نشانہ بنائے گا۔ اس صورت میں بھارت کی بندرگاہیں، بڑے کارخانے اور دفاعی تنصیبات پاکستان کے برق رفتار اور خوف ناک میزائلوں سے محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔یہ محض قیاس آرائی نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جن کے بارے میں بھارت کے عوام کو پہلے سے سوچ لینا چاہیے۔ ایک شدت پسند گروہ کو خود پر مسلط کرکے بھارتی عوام نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ہی ماری ہے۔ سرِدست مودی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے پچاس فیصد ٹیرف ہیں۔ یہ ٹیرف بھارت کی ٹیکسٹائل مصنوعات، سمندری غذا، جیولری اور دیگر برآمدات پر براہ راست اثر انداز ہوں گے جس سے بھارتی معیشت پر ابھی سے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق اگر اس چیلنج کا جلد کوئی حل نہ نکالا گیا تو معاشی دباؤ کی کیفیت بھارت میں شدید سماجی اور سیاسی مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ اس معاشی دباؤ کے دوران، اگر بھارت سرحدی کشیدگی یا پاکستان کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرتا ہے، تو اس کے لیے دفاعی اخراجات کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا، جو معیشت کی بحالی کی کوششوں کو مزید سست کرے گا۔
اب معاشی دباؤ میں عوام کی ناراضی سے نمٹنے کے لیے مودی سرکار کے پاس صرف جنگی جنون کا ایک پرانا اور فرسودہ نسخہ باقی ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر فاشسٹ اور ناکام سیاسی قیادت نفرت اور تعصب کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرتی ہے اور اس طرزِ حکمرانی میں مسائل کے حل کے بجائے انہیں مزید بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ مودی حکومت نے اپنی سیاست کو مسلم دشمنی اور پاکستان مخالف بیانیے پر کھڑا کیا جس کا نتیجہ ہے کہ بھارت کے پورے نظا م حکومت اور سیاست میں یہی زہر سرایت کر چکا ہے۔ تاہم یہ حربہ معاشی اور عسکری محاذوں پر ناکام ہو رہا ہے اور بھارتی قیادت کے پاس کوئی متبادل حکمت عملی نہیں ہے۔ بھارت کی جانب سے سیاسی، سفارتی اور عسکری سطح پر جو حماقتیں کی جا رہی ہیں وہ بھارت کی داخلی کمزوریوں کو مزید اجاگر کرتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کی قیادت نے سفارتی اور عسکری دونوں محاذوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کو داخلی سطح پر بھارت کے عسکری اتحادیوں یعنی فتنہ خوارج اور فتنہ ہندوستان کی طرف سے ہی مسائل لاحق ہو سکتے ہیں لیکن اب اس کے تدارک کے لیے بھی مؤثر لائحہ عمل اختیار کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے دوٹوک موقف کے ذریعے دراصل پوری قوم کے جذبات و احساسات کی درست ترجمانی کی ہے۔ موجودہ حالات میں بقا کے لیے دفاع اور اقدامی صلاحیتوں کا حصول ناگزیر ہے۔ امتِ مسلمہ یہ سبق جس قدر جلد سیکھ لے اتنا ہی بہتر ہے۔
اسلام آباد میں مساجد کی شہادت
اسلام آباد میں سی ڈی اے کی جانب سے ایک مسجد کو راتوں رات شہید کرنے اور مدیگر مساجد کو نوٹس دیے جانے پر ملک کے دینی حلقوں میں سخت تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ملک حالتِ جنگ میں ہے، کارپردازانِ شہر کو آخر ایک مسجد کو ہنگامی طورپر شہید کرنے اور ملک میں ایک نیا فتنہ کھڑا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آخر اس قسم کی عاجلانہ حرکتوں سے عوام کو کیا پیغام دینا مقصود ہے؟ ہماری دانست میں خود انتظامیہ میں ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو ریاست اور حکومت کے خلاف منفی اور تشددآمیز پروپیگنڈے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہیں لہٰذا وہ حکومت اور مذہبی طبقات کے درمیان کشیدگی کو ہوا دے رہی ہیں۔ ایک طرف پاک فوج کے سربراہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کی میراث قائم رکھتے ہوئے ایک نئے جذبے اور مقصد کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت مذہبی طبقات کے ساتھ سینگ لڑانے کے لیے آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ عقل و دانش کا کیسا استعمال ہے؟ موجودہ حالات میں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ قوم کو متحد رکھے نہ کہ مزید انتشار و افتراق کا سبب بنے۔