پڑوسیوں کے حقوق۔۔۔ شریعتِ اسلام کی نظر میں

تحریر: محمد وقاص رفیع

اسلام ایک سچے دین اور ایک مکمل ضابطۂ حیات کا نام ہے ۔ اُس نے انسان کی معاشرتی زندگی کے لیے ایسی روشن تعلیمات اور ایسے سنہری اُصول مقرر فرما رکھے ہیں کہ دُنیا کا کوئی بھی انصاف پسند اور ذی عقل شخص یا مذہب فطرتی طور پر نہ اُن کو جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی اُن سے سر مو اختلاف کرسکتا ہے ۔ اس لیے کہ اسلام نے صرف مذہب اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی رعایت و پاس داری کا سبق نہیں دیا بلکہ اُس نے مذہب اور مسلک کی آڑ سے الگ ہٹ کر انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے دُنیا بھر کے تمام دیگر ادیان و مذاہب ، اُن کے پیرو کاروں اور اُن کے ماننے والوں کے حقوق کی پاس داری اور ان کی رعایت کرنے کا بھی ہمیں درس دیا ہے۔

اسلام کی ان روشن تعلیمات اور اُس کے ان سنہری اُصول و ضوابط پر اگر مکمل طور پر عمل در آمد کیا جائے تو یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ تمام دُنیا عافیت و سلامتی کا گہوارہ اور امن و امان کا شہ پارہ بن جائے۔مثال کے طور پر آپ انسانی معاشرتی زندگی کا صرف یہ ایک پہلو ’’ ہمسایہ اور پڑوسی‘‘ ہی کولے لیں اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے حقوق کی رعایت و پاس داری کا مطالعہ فرمائیں اور دیکھیںکہ اس نے اپنی روشن تعلیمات اور اپنے سنہرے اُصول و قواعد کی روشنی میں اس کے حقوق کو کس طرح اجاگر کیا ہے؟
چنانچہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اُس کو چاہیے کہ وہ مہمان کا اکرام کرے ، اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور زبان سے کوئی بات نکالے تو بھلائی کی نکالے ورنہ چپ رہے ۔‘‘ ( صحیح بخاری)گویا پڑوسی کے حق کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ بتلایا کہ اس کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائے اور یہ اُس کا بہت ہی ادنیٰ درجہ کا حق ہے ، ورنہ دوسری روایات میں پڑوسی اور ہمسایہ کے حق کے متعلق بہت زیادہ تاکیدیں وارد ہوئی ہیں۔
ایک مرتبہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا : ’’جانتے ہو کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟‘‘ ( اور پھر خود ہی ارشاد فرمایا ) اگر وہ تجھ سے مدد چاہے تو اُس کی مدد کر ، اگر قرض مانگے تو اُس کو قرض دے ، اگر محتاج ہو تو اُس کی اعانت کر ، اگر بیمار ہو تو اُس کی عیادت کر ، اگر مرجائے تو اُس کے جنازے میں شریک ہو ، اگر اُس کو خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دے ، اگر اُس کو مصیبت پہنچے تو تعزیت کر ، بغیر اُس کی اجازت کے اُس کے مکان کے پاس اپنا مکان اُونچا نہ کر کہ جس سے اُس کی ہوا رُک جائے ، اگر تو کوئی پھل خریدے تو اس کو بھی ہدیہ دے ، اور اگر یہ نہ ہوسکے تو اُس پھل کو ایسی طرح پوشیدہ گھر میں لا کہ وہ نہ دیکھ سکے اور اُس کو تیری اولاد باہر لے کر نہ نکلے تا کہ پڑوسی کے بچے اس کو دیکھ کر رنجیدہ نہ ہوں اور اپنے گھر کے دُھویں سے اُس کو تکلیف نہ پہنچا مگر اُس صورت میں کہ جو پکاوے اُس میں سے اُس کا بھی حصہ نکالے ۔ ( پھر فرمایا)تم جانتے ہو کہ پڑوسی کا کتنا حق ہے ؟ قسم ہے اُس پاک ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے اُس کے حق کو اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا جس پر اللہ رحم کرے ۔‘‘( فتح الباری)
ایک حدیث میں ہے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا : ’’ اللہ کی قسم مومن نہیں ہے ، اللہ کی قسم مومن نہیں ہے ، اللہ کی قسم مومن نہیں ہے ۔‘‘ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ وہ شخص کہ جس کا پڑوسی اُس کی مصیبتوں سے مامون نہ ہو۔‘‘( صحیح بخاری)ایک اور حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ جنت میں وہ شخص داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اُس کی مصیبتوں سے مامون نہ ہو ۔ ‘‘(صحیح مسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ حضرت جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی ( کے حقوق کا خیال رکھنے )کے بارے میں اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو وارث بنا کر چھوڑیں گے۔‘‘(صحیح بخاری)
جیساکہ عرض کیا گیا کہ پاس والے پڑوسی سے مراد یہ ہے کہ اُس کا مکان قریب ہو اور دُور والے پڑوسی سے مراد یہ ہے کہ اُس کا مکان دُور ہو تو اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ : ’’ پڑوس کہاں تک ہے ؟‘‘آپؒ نے فرمایا : ’’ چالیس مکان آگے کی جانب اور چالیس پیچھے کی جانب ، چالیس دائیں جانب اور چالیس بائیں جانب۔‘‘ (الادب المفرد)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مختلف طرق سے نقل کیا گیا ہے کہ پاس کا پڑوسی وہ ہے جس سے قرابت ہو اور دُور کا پڑوسی وہ ہے جس سے قرابت نہ ہو۔‘‘ حضرت نوف شامی رحمہ اللہ سے نقل کیا گیا ہے قریب کے پڑوسی سے مراد مسلمان پڑوسی ہے اور دُور کے پڑوسی سے مراد یہود و نصاریٰ اور غیر مسلم پڑوسی ہیں۔‘‘ (الدرالمنثور)
ایک حدیث میں ہے ، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں : ایک وہ پڑوسی کہ جس کے تین حق ہوں : (۱) پڑوس کا حق (۲) رشتہ داری کا حق (۳) اور اسلام کا حق ۔ دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوں : (۱) پڑوس کا حق (۲) اور اسلام کا حق ۔ تیسرا وہ پڑوسی کہ جس کا ایک حق ہو : (۱) وہ غیر مسلم پڑوسی ہے ۔‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’ دیکھو! اس حدیث میں محض پڑوسی ہونے کی وجہ سے کافر کا حق بھی مسلمان پر قائم فرمایا ہے۔‘‘ (احیاء علوم الدین )ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماکے غلام نے ( آپؓ کی ) ایک بکری ذبح کی ۔ آپؓ نے اُس سے فرمایا : ’’جب اس کی کھال اُتار چکو تو سب سے پہلے اس کے گوشت میں سے میرے یہودی پڑوسی کو دینا ،سب سے پہلے اس کے گوشت میں سے میرے یہودی پڑوسی کو دینا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’ حضرت جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی ( کے حقوق کا خیال رکھنے )کے بارے میں اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو وارث بنا کر چھوڑیں گے۔‘‘(الادب المفرد)
حضرت علقمہ بن بجالہ رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ’’ ( بھلائی وغیرہ کی ابتداء) نزدیک کے پڑوسی کو چھوڑ کر دُور کے پڑوسی سے نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ دُور کے پڑوسی کو چھوڑ کر نزدیک کے پڑوسی سے کرنی چاہیے!‘‘ (اس لیے کہ ایسا کرنا نزدیک والے پڑوسی کے لیے ( اُس کے حق میں حسن سلوک کا ) دروازہ بند کرنے کے مترادف ہے) (الادب المفرد) حضرت ابن عمررضی اللہ عنہماسے مروی ہے : ایک زمانہ یا ایک وقت ہم پر وہ بھی آیا تھا کہ جب ایک شخص اپنے درہم و دینا ر کا حق دار اپنے مسلمان بھائی سے زیادہ کسی اور کو نہ سمجھتا تھا اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ درہم ودینار ہمارے نزدیک مسلمان بھائی سے زیادہ محبوب ہیں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’ بہت سے لوگ قیامت کے دن اپنے پڑوسی کی وجہ سے لٹکے رہیں گے ۔ پڑوسی کہے گا : ’’ اے میرے پروردگار! یہ شخص میرے لیے اپنا دروازہ بند رکھتا تھا اور مجھے اپنے حسن سلوک سے محروم کردیا کرتا تھا۔( الادب المفرد)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’ وہ شخص مسلمان نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اُس کا پڑوسی بھوکا رہے۔‘‘ ( الادب المفرد)حضرت ابوذر غِفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے محبوب حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی نصیت فرمائی ( جن میں سے ایک یہ تھی کہ ) جب میں شوربہ (والا سالن) پکاؤں اور اُس میں پانی زیادہ ہوجائے تو اپنے اڑوس پڑوس کے گھروں کو دیکھ لوں اور اُن کو بھی دے دوں ‘۔( الادب المفرد)اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقو ق اداکرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین