ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان پنجہ آزمائی کے امکانات

عالمی ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کے عالمی مرکز اسرائیل کی قیادت کو شام میں ترکیہ کے بڑھتے ہوئے کردار پر سخت تشویش لاحق ہے اور وہ ترکیہ کی بتدریج پیش قدمی کو خطے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کے قوی ہوتے امکانات کی صورت میں دیکھ رہی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے ترکیہ کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ شام میں فوجی اڈے کے قیام اور جدید حربی ٹیکنالوجی کی منتقلی سے باز رہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی قیادت شام اور ترکیہ کے درمیان دفاعی معاہدے پر سیخ پا ہے جس کا اظہار شام کے مختلف مقامات پر بمباری اور درعا کے علاقے میں فوجی دستوں کی نقل و حرکت سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شام کی انقلابی فورسز اور درعا کے رضاکار دستوں نے مشترکہ طور پر اسرائیلی دستوں پر گھات لگا کر حملے کیے اور انھیں جانی نقصان سے دوچار کرتے ہوئے پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق شام کے مختلف علاقوں، ہوائی اڈوں اور عوامی مقامات پر اسرائیل کی بمباری دراصل ترک قیادت کے لیے ایک دھمکی ہے۔ شام اور ترکیہ کے درمیان دفاعی تعلقات اسرائیل کی دہشت گرد قیادت کے لیے تشویش کی وجہ یوں ہیں کہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ایک ناقابلِ تسخیر چٹان یا ایک آہنی دیوار کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ غزہ کے محصور، مفلوک الحال اور نہتے مسلمانوں کو بموں سے نشانہ بنانے والی دجالی ریاست کو شاید پہلی مرتبہ ایک ایسے حریف کا سامنا ہونے والا ہے جو اس کی شیطانی قوت کے مقابل آنے کا نہ صرف حوصلہ رکھتا ہے بلکہ اس کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہر قسم کے وار کا جواب دینے کا عادی بھی ہے۔ شام میں ترک افواج کی موجودگی نہ صرف شام کے حریت پسند عوام کے لیے تقویت کا باعث ہوگی بلکہ شامیوں اور ترکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی قرابت ترک، عرب اتحاد کے اس دیرینہ خوا ب کی تعبیر بھی ہوگی جو گزشتہ ڈیڑھ صدیوں سے عالمِ اسلام کے ہر درد مند فرد نے دیکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل نامی دہشت گردی کے مرکز کا قیام قومیت کے بدبودار اور انتہا پسند نعرے کی مقبولیت کی وجہ ہی سے ممکن ہوا۔ جمعیت اتحاد و ترقی نے جمہوریت، آزادی، انصاف اور حقوق کے نام پر ترکوں کی سادگی سے فائد ہ اٹھایا جبکہ عرب قبائل لسانی اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے مرکزِ خلافت سے کٹ گئے جس کا انجام چھوٹی اور قوت سے محروم ریاستوں کی صورت میں نکلا جونہ ہی اپنا دفاع کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی وہ فلسطین کے مسلمانوں کو اسرائیلی دہشت گردوں کی بندوق سے بچانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ قومیت اور جغرافیائی بنیادوں پر منقسم اور قوت حرب سے محروم ان ریاستوں کے درمیان اسرائیل نامی دہشت گردی کے اڈے کو امریکا اور یورپی اقوام کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی ہے اور فلسطین کے نہتے لیکن غیور مسلمان وسائل اور اسباب سے محروم ہونے کے باوجود محض کلمہ، عقیدے اور مسجدِ اقصیٰ کے تحفظ کی خاطر ان تمام طاقتوں سے تنہا ٹکراتے رہے ہیں۔
اس گھٹا ٹوپ منظر نامے میں ترکوں کی بیداری اور مضبوط اعصاب اور مستحکم قدموں کے ساتھ اسرائیل کی جانب بڑھتے قدم تاریخ کے اس موڑ پر ایک ڈرامائی اور سنسنی خیز مرحلہ دکھائی دے رہا ہے۔ خدا کرے کہ ترکیہ کی پیش قدمی مستحکم بنیادوں پر جاری رہے اور ترک افواج شامی حریت پسندوں کے ساتھ مل کر مضبوط دفاعی مراکز قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں کیوں کہ اس صورت میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے ایک مضبوط بند تعمیر ہو جائے گا اور وہ قرب و جوار کے تمام ممالک کو اپنی فضائی طاقت کے بل پر جس دھونس اور غنڈہ گردی کا نشانہ بناتا چلا آ رہا ہے اس میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔ یہ امر واضح ہے کہ گزشتہ نو برسو ں میں ترکیہ نے شام کے مختلف حصوں میں اپنی موجودگی کو بڑھایا ہے ۔ شام کی سرزمین ہی وہ راستہ ہے جو ترکیہ کو اسرائیل کے سر پر پہنچنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ شام کی سرزمین پر ترکوں کے مضبوط قدم پڑ چکے ہیں جو بہرحال اسرائیل کو من مانی کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ مضبوط عسکری قوت اور نیٹو کی رکنیت کے وجہ سے اسرائیل کے لیے بھی ترکوں پر حملہ آسان کام نہیں ہوگا۔ چنانچہ قیاس یہ کہتا ہے کہ اسرائیل اب ترکوں کے خلاف پراکسی وار کا حربہ آزمائے گا اور اس کام کے لیے بشار کے حامیوں نیز ایرانی اتحادیوں، کردوں اور داعش کے دہشت گردوں کا استعمال کیا جائے گا تاہم جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے کہ ترکیہ شام میں مضبوطی سے جم گیا تو وہ پراکسی وار کا جواب ادھار نہیں رکھے گا ۔یوں کہ فلسطینی مزاحمت میں مزید شدت اور قوت پیدا ہونے کے امکانات بھی روشن ہیں جیسا کہ غزہ میں یہ حرارت پندرہ ماہ کی شدید ترین بمباری اور بدترین نسل کشی کا سامنا کرنے کے باوجود دکھائی دے رہی ہے۔ فوری طور پر ترکیہ اوراسرائیل کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات پر توکلام ہوسکتا ہے تاہم تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اسی جانب بڑھ رہے ہیں کہ آخر کار ترکیہ کو اسرائیل کا مزاج پوچھنے پر مجبور ہونا ہی پڑے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص ترکیہ، سعودی عرب اور پاکستان باہمی دفاعی معاہدوں کی جانب متوجہ ہوں۔ امریکا اور یورپی ممالک نے گزشتہ سات دھائیوں میں کبھی طاقت کا توازن اسرائیل کی مخالف سمت جانے نہیں دیا لیکن تابکے؟ غزہ کے مظلوم شہریوں اور معصوم بچوں کا خون ایک دن رنگ ضرور لائے گا۔
بجلی کی قیمتوں میں کمی کا مستحسن اعلان
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ 7 روپے قریباً کمی کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق ملک معاشی بحالی کی سمت چل پڑا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید بہتری آئے گی۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی ایک اچھا اقدام ہے جس کے نتائج اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں گراوٹ کی صورت میں سامنے آنا چاہئیں۔ توانائی کی قیمتوں میں کمی کے برآمدات میں اضافے، قرضوں میں کمی اور عام آدمی کی خوشحالی کے لیے اہم ترین قدم ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت سستی توانائی کے حصول کی جانب توجہ مرکوز رکھے گی اور عام آدمی کے معاشی استحکام کے لیے سستی توانائی کے جدید طریقوں سے وسیع پیمانے اور عوامی سطح پر استفادہ ممکن بنایا جائے گا۔