عید پر بھی فلسطینی بچوں کا قتل عام

قابض و غاصب صہیونی فوج نے عید الفطر کے موقع پر بھی فلسطین میں معصوم بچوں اور نہتے عوام کا قتل عام جاری رکھا۔ ایک طبی اہلکار کا یہ دل خراش جملہ سوشل میڈیا کے توسط سے دنیا بھر میں عید الفطر کی خوشیاں منانے والے مسلمانوں کے کلیجے چیر گیا کہ’ اس کا عید کا پہلادن شہید ہونے والے معصوم بچوں کے جسموں سے عید کے جوڑے کاٹنے میں گزرا ہے۔’ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی مبغوض ترین اور ملعون ترین قوم یہود کے سینے میں دل اور ضمیر میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے اور المیہ یہ ہے کہ آج کی اکیسویں صدی میں بھی دنیا میں کوئی ایسی طاقت موجود نہیں ہے جو انسانوں کے بھیس میں دندناتے ان بھیڑیوں اور خونخوار کتوں کو معصوم بچوں کے جسم بھنبھوڑنے سے باز رکھ سکے۔

اس وقت دنیا پر جن قوتوں کی حکمرانی ہے وہ غزہ میں جاری قتل عام اور نسل کشی کے معاملے پر نہ صرف یہ کہ اسرائیل کی پشت پر ہیں بلکہ درحقیقت یہ نسل کشی انہی کے ایماء پر انہی کے فراہم کیے گئے ہتھیاروں سے کی جارہی ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ یہ جنگ پورے مذہبی جوش و جذبے کے تحت لڑ رہے ہیں اورفلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے پیچھے یہودو نصاریٰ کے تاریخی گٹھ جوڑ کا عنصر کار فرما ہے۔ امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ دنوں صلیب کا نشان اٹھاکر اس کے تحت جنگ لڑنے کا واضح اشارہ دے چکے ہیں۔

دوسری جانب غزہ کے معصوم بچوں کے وارث دنیا کے دو ارب مسلمان بدستور خواب خرگوش میں مست ہیں اور ان کے حکمرانوں میں غیرت و حمیت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔ ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ستاون اسلامی ممالک جن میں بائیس عرب شناخت والے ممالک بھی شامل ہیں،جو دنیا کے ساٹھ فی صد قدرتی وسائل کے مالک ہیں اور جن کے پاس بڑی بڑی فوجیں اور سرمایہ ہے ،وہ اتنے بے بس ہوں کہ غزہ میں اپنے معصوم بچوں کے قتل عام پر موثر صدائے احتجاج بھی بلند نہ کرسکیں۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ بعض اسلامی ممالک یوکرین میں جنگ رکوانے کے لیے امریکا اور روس کے درمیان تو ثالثی کر رہے ہیں اور انہیں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ دوستی پر بڑا ناز بھی ہے اور وہ معاشی لحاظ سے اتنے طاقتور ہیں کہ امریکا کے اندرر کئی ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں لیکن دوسری جانب ان سے اتنا بھی نہیں ہوپاتا کہ کم سے کم غزہ میں جارحیت اور نسل کشی رکوانے کے لیے بھی کوئی سنجیدہ کردار ادا کرسکیں اور اپنی معاشی طاقت اور حیثیت کو امت مسلمہ کے مفادات کے لیے استعمال کریں۔

نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل پوری بے شرمی کے ساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں کے دوبارہ آغاز کے بعد غزہ میں گزشتہ دو ہفتوں میں کم از کم 322 بچے شہید ہو چکے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق اس دوران 609 بچے زخمی بھی ہوئے۔ یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھیرین ریسل کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد غزہ کے بچوں کو زندگی جینے کا اور اسے دوبارہ بحال کرنے کا موقع ملا تھا جس کی انھیں اشد ضرورت تھی۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ میں بلا اشتعال بمباری دوبارہ شروع ہو چکی ہے اور 31 مارچ سے قبل آخری 10 دنوں میں سینکڑوں بچے جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔ ( شہید ہونے والی خواتین کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے ) یونیسیف کے مطابق شہید ہونے والوں میں اکثریت بے گھر ہونے والے بچوں کی ہے جو خیموں یا تباہ شدہ مکانات میں رہ رہے تھے۔ یونیسیف کے مطابق غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد گذشتہ 18 مہینوں میں اطلاعات کے مطابق مجموعی طور 15 ہزار بچے جاں بحق اور 34 ہزار زخمی ہو چکے ہیں جبکہ فلسطینی ذرائع کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ خیال رہے اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے اپنے جرائم چھپانے کی خاطر تمام بین الاقوامی صحافی اداروں کے غزہ میں آزادانہ داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور غزہ سے بین الاقوامی میڈیا کے لیے رپورٹنگ کرنے والے 200سے زائد صحافیوں کو ہدف بناکر قتل کیا ہے ۔ اسرائیل نے اب دو قدم آگے بڑھ کر غزہ میں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے والے اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے اہلکاروں کو بھی قصداً قتل کرنا شروع کردیا ہے تاکہ کوئی بھی امدادی ادارہ غزہ کے مظلوموں کی مدد کو نہ آسکے۔

یہ ساری مذموم مہم جوئی غزہ کے تیس لاکھ باشندوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرکے وہاں عیاشی کے اڈے قائم کرنے کے بد کردار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شیطانی منصوبے کی تکمیل کی خاطر کی جارہی ہے ۔ چنانچہ دہشت گرد ریاست اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائی غزہ کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے کے لیے کی جارہی ہے جس کے تحت مزیدکئی علاقوں سے وہاں کے باشندوں کو بے دخل کردیا جائے گا۔ بدھ کے روز جاری ایک بیان میں کاٹز کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں لڑائی جاری ہے، وہاں سے بڑے پیمانے پر فلسطینی آبادی کا انخلا کیا جائے گا۔ اس بیان سے بالکل واضح ہے کہ اگر اس مرحلے پر اسرائیل کا ہاتھ نہیں روکا گیا تو وہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرکے رہے گا۔ عرب ممالک نے غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے منصوبے کو مسترد کرکے اچھا اقدام کیا تھا مگر جب امریکا اور اسرائیل نے ان کے موقف کو تسلیم نہیں کیا اور وہ اپنے طے شدہ منصوبے پر ہی عمل پیرا ہیں اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں تو اب عرب ممالک کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟ کیا وہ اس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب خدانخواستہ فلسطینی مسلمانوں کی نسلی تطہیر مکمل ہوجائے گی اور غزہ میں کوئی مسلمان باقی ہی نہیں رہے گا یا پھر امریکا اور اسرائیل بچے کھچے مسلمانوں کو زبردستی جہازوں میں بھر بھر کر ان ممالک میں بھیجیں گے؟ کیا اس وقت بھی وہ امریکا کو انکار کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ امت مسلمہ کے لیے بہت ہی شرم ناک صورت حال ہے۔ مسلم حکمرانوں کو کچھ تو حمیت دکھانی چاہیے اور کم از کم غزہ میں قتل عام فوری طور پررکوانے اور مذاکرات بحال کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

امت مسلمہ کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ خاکم بدہن غزہ کے سقوط کے اثرات صرف فلسطین تک محدود نہیں رہیں گے۔ صہیونی ریاست امریکی آشیر باد سے گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جس کا نقشہ بھی خود نیتن یاہو کی جانب سے پچھلے دنوں جاری کیا چکا ہے۔ اگر مصر،اردن اور سعودی عرب جیسے ممالک نے صہیونی منصوبے کی مزاحمت نہیں کی تو یہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔